تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
باب : ۱مسلمانوں سے پہلے اندلس کی حالت جغرافیۂ اندلس یورپ کے نقشے میں جنوب و مغرب کی جانب ایک نمایاں جزیرہ نما ہے جس کے ذریعہ یورپ کا برّاعظم افریقہ کے براعظم سے ملتا یعنی اس جزیزہ نما کا جنوبی گوشہ مراکش کے شمالی گوشہ سے بغل گیر ہو کر ایک خاکنائے بنانا چاہتے تھے کہ بحر روم یا بحر متوسط نے بحر ظلمات یا بحر اطلانطک سے مصافحہ کرنے میں سبقت کی اور یورپ و افریقہ کے درمیان قریباً دس میل کا فاصلہ رہ گیا‘ بحر متوسط اور خلیج بسکی ایک دوسرے کی طرف بڑھ کر یورپ کے اس جزیرہ نما کو جزیرہ بنانا چاہتے تھے‘ مگر جبل البرتات یا کوہ پیری نیز کے سلسلے نے ایک سنگین دیوار اٹھا کر اس جزیرہ نما کو فرانس سے جدا تو کر دیا‘ لیکن جزیرہ نہ بننے دیا‘ یورپ کے اس جنوبی و مغربی جزیرہ نما کو آئی بیریا‘ اسپین‘ ہسپانیہ‘ اندلس وغیرہ ناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ جس کا رقبہ دو لاکھ مربع میل سے زیادہ ہے۔ پیداوار اور آب و ہوا آب و ہوا یورپ کے تمام ملکوں سے بہتر‘ یعنی معتدل‘ زمین زراعت کے لیے زیادہ موزوں اور زرخیز ہے‘ شادابی و سرسبزی اور کثرت پیداوار میں یہ ملک شام و مصر سے مشابہ ہے‘ چاندی کی کانیں خاص طور پر مشہور اور دوسری قیمتی دھاتیں بھی اس ملک میں پائی جاتی ہیں۔ وادی الکبیر اور ٹیکس دو مشہور بڑے دریا بہتے ہیں‘ ان دریائوں اور ان کے معاونوں نے اس جزیرہ نما کو تختۂ گلزار بنانے میں کمی نہیں کی‘ اس جزیرہ نما کی شمالی سرحد پر خلیج بسکی اور جبل البرتات ہے‘ مشرق میں بحر روم یا بحر متوسط ہے‘ جنوب میں بحر متوسط آبنائے جبل الطارق اور بحر ظلمات اور مغرب میں بحر ظلمات ہے۔ صوبوں اور ولاتیوں کی تفصیل اس جزیرہ نما کے مشہور صوبوں اور ولاتیوں کی تفصیل اس طرح ہے‘ گوشۂ جنوب و مغرب میں پر تغال‘ شمال و مغرب میں جلیقیہ کا صوبہ ہے‘ شمال میں استوریہ‘ قسطلہ‘ اربونیہ‘ ارغوان کے صوبہ ہیں‘ شمال و مشرق ہیں قطلونیہ‘ مشرق میں اندلوسہ کے صوبے ہیں طیطلہ اندلس یا ہسپانیہ کے وسط میں ہے‘ قرطبہ اور غرناطہ کے مشہور شہر صوبۂ اندلوسہ یعنی جزیرہ نما کے جنوبی حصہ میں واقع ہیں‘ اشبیلیہ بھی جنوبی و مغربی علاقہ میں مشہور شہر تھا‘ اس جزیرہ نما کا سب سے زیادہ زرخیز و آباد اور قیمتی علاقہ جنوبی حصہ یعنی صوبہ اندلوسیہ ہے اور یہی جنوبی حصہ زیادہ عرصہ تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہا جیسا کہ آگے بیان ہونے والا ہے۔ اندلس میں اہل فونیشیا‘ قرطاجنہ‘ رومی‘ گاتھ کی حکومت فونیشیا کی حکومت فینیشیا یا فونیشیا یا کنعان اس ملک کا نام ہے جو ملک شام کا مغربی حصہ کہلاتا ہے اور جو بحر روم کا مشرقی ساحل ہے‘ سیدنا موسیٰ uسے کئی سو سال پیشتر اس حصۂ ملک میں ایک بڑی زبردست اور تجارت پیشہ قوم رہتی تھی جو آج کل مورخین میں اہل فونیشیا کہلاتی ہے‘ اہل فونیشیا کے جہازات تمام بحرروم میں تجارتی مال ادھر سے ادھر لے جانے میں مصروف تھے‘ مال و دولت کی فراوانی نے ان کو ایک خاص تہذیب اور خاص تمدن کا بانی بنایا‘ فلسطین پر قبضہ کر کے انہوں نے بحر قلزم کے راستے ہندوستان و چین تک اور ادھر آبنائے جبل الطارق سے گزر کر انگلستان و بحر شمالی تک اپنی تجارت کا سلسلہ قائم کیا‘ بحر روم کی شمالی اور جنوبی بندرگاہوں پر انہی کا قبضہ تھا اور ان کی بحری طاقت دنیا میں سب سے بڑی بحری طاقت تھی‘ انہوں نے جابجا اپنی نو آبادیاں قائم کر لی تھیں انہیں نو آبادیوں میں شمالی افریقہ (تیونس) کا شہر قرطاجنہ ان کا آباد کیا ہوا تھا جو بعد میں ایک مستقل حکومت و سلطنت کا پائے تخت بنا۔ انہیں نو آبادیوں میں ملک اندلس کے ساحلی مقامات پر ان کے آباد کئے ہوئے شہر و قصبہ اور بندرگاہ تھے‘ رفتہ رفتہ ملک اندلس ان کی سلطنت کا ایک صوبہ بن گیا اور اہل فینشیا یہاں حکومت کرنے لگے‘ جب اہل فینشیا کی سلطنت و حکومت میں زوال پیدا ہوا تو انہی کے بعض افراد نے قرطاجنہ یعنی تیونس میں ایک زبردست سلطنت کی بنیاد قائم کی اور اندلس بھی سلطنت قرطاجنہ کا ایک صوبہ بن گیا‘ اہل قرطاجنہ نے سینکڑوں برس کوس انا ولا غیری بجایا‘ یہ لوگ آتش پرست اور ستارہ پرست تھے‘ ان کی تہذیب اپنے زمانے میں لانظیر سمجھی جاتی تھی‘ اہل فینشیا کے مقابلے میں اندلس پر اہل قرطاجنہ کا