تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مگر انھوں نے اپنے اس پیشہ کو ترک نہ کیا۔ چنانچہ معز بن بادیس نے صنہاجہ وغیرہ قبائل بربر کے تیس ہزار آدمیوں کو ہمراہ لے کر ان عربوں کی سرکوبی کا عزم کیا۔ عرب جو اس کے مقابلے میں آئے صرف تین ہزار تھے۔ مگر لڑائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ معز کو شکست فاش حاصل ہوئی۔ معز بن بادیس نے فرار ہو کر قیروان میں پناہ لی۔ اس کے بعد معز نے پھر قبائل بربر کی زبردست فوج لے کر ۱۰ ذی الحجہ ۴۴۶ھ کو بروز عیداضحیٰ عربوں پر حملہ کیا۔ اس مرتبہ بھی اس کو شکست ہوئی۔ تیسری مرتبہ اس نے پھر حملہ کیا اور اس مرتبہ بھی عرب فتح مند ہوئے۔ اور قیروان تک معز کا تعاقب کیا۔ اور شہر باجہ پر عربوں کے سردار یونس بن یحییٰ کا قبضہ ہو گیا۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ معز بن بادیس ۴۴۹ھ میں قیروان کو چھوڑ کر مہدیہ چلا گیا۔ اور یونس بن یحییٰ نے قیروان پر قبضہ کر لیا۔ خانہ جنگی ادھر قاہرہ کی یہ حالت تھی کہ مستنصر کی ماں اپنے بیٹے سے جو حکم چاہتی تھی صادر کرا دیتی تھی۔ اس طرح اس کا اثر و اقتدار بہت ترقی کر گیا تھا۔ دوسری طرف وزرائے سلطنت اپنی حفاظت کو مد نظر رکھ کر شاہی فوج میں ترکوں کو بھرتی کرتے رہتے تھے۔ اس طرح فوج میں تین زبردست طاقتیں موجود تھیں۔ ایک جمع ودانی غلاموں کی طاقت تھی۔ یہ لوگ تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ دوسرے کتامی اور بربری لوگ تھے۔ ان کی تعداد کم تھی تیسرا گروہ ترکوں کا تھا۔ یہ تعداد میں غلاموں سے کم تھے۔ مگر جنگی استعدادان میں زیادہ تھی۔ اتفاق سے ایک غلام ناصرالدولہ بن حمدان سودانی ترقی کر کے امراء و اراکین دولت کی حمایت سے سپہ سالاری کے درجہ پر پہنچ گیا۔ اور ترکوں کا لیڈر اور سردار بن گیا۔ سلطنت کے اعضا کٹ کٹ کر خود مختار ہو چکے تھے۔ اور اراکین سلطنت اور مستنصر کی والدہ اور مستنصر سب قاہرہ کے اندر ایک دوسرے کی طاقت کو گھٹانے اور زیر کرنے میں مصروف تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ترکوں اور غلاموں میں خانہ جنگی نمودار ہوئی اور مستنصر عبیدی کی فوج کے دو حصے ہو کر آپس میں لڑنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ترکوں کے ہاتھ سے ہزار ہا غلام مارے گئے۔ اور ناصرالدولہ ترکوں کا سردار سب پر غالب ہو گیا۔ اور اس نے مستنصر کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے حسب منشاء امور سلطنت طے کرنے شروع کئے۔ مستنصر نے اپنی حالت سقیم کو تبدیل کرنے کے لئے اپنے غلام بدر جمالی ارمنی الاصل کو جو عکہ میں برسر حکومت تھا۔ اشارہ کیا۔ بدر جمالی نے عکہ میں ارمنی لوگوں کی بھرتی جاری کر دی اور ایک زبردست ارمنی فوج لے کر براہ دریا جہازوں میں سوار ہو کر مصر میں داخل ہوا۔ مستنصر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مستنصر نے اس کو قلم دان وزارت عطا کیا۔ اور چند ترکوں کو سمجھایا کہ ناصرالدولہ نے تم کو بلا وجہ جنگ و جدل کی مصیبت میں پھنسایا ترکوں نے خلیفہ کا یہ اشارہ پا کر اپنی آئندہ بہبود مدنظر رکھ کر ناصرالدولہ کو خود ہی دھوکے سے قتل کر دیا۔ اب بدر جمالی ترکوں کا سردار بن گیا۔ بدر جمالی نے خوب طاقتور ہو کر اور سلطنت کے تمام شعبوں اور صیغوں پر مستولی ہونے کے بعد وفاداری کے ساتھ سلطنت کے اعتماد و وقار کو بڑھایا۔ باغی سرداروں کو اطاعت پر مجبور کیا۔ جو شہر قبضے سے نکل گئے تھے ان کے واپس فتح کرنے کی تدبیروں میں مصروف ہوا۔ طرابلس کو بھی عربوں سے چھین لیا۔ فلسطین کے تمام علاقے کو بھی حکومت میں شامل کیا۔ دمشق کی حالت یہ تھی کہ وہاں جو شخص قابو پاتا تھا۔ قابض ہو جاتا تھا۔ مگر خطبہ