تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
موت کا باعث ہوا۔ سلطان سلیم کے عہد حکومت پر تبصرہ سلطان سلیم نے صرف آٹھ سال آٹھ مہینے آٹھ دن حکومت کی‘ اس قلیل مدت میں اس نے جس قدر فتوحات حاصل کیں کسی بڑے سے بڑے سلطان کو بھی حاصل نہیں ہو سکیں‘ سلطان کی خصوصیات میں سب سے قابل تذکرہ بات یہ ہے کہ وہ انتہائی طیش و غضب کے عالم میں بھی علمائے دین کی تکریم کو مدنظر رکھتا تھا‘ وزیروں اور سپہ سالاروں کو معمولی لغزشوں پر قتل کر دینا اس کے لیے معمولی بات تھی اور اسی لیے اراکین سلطنت اس سے خائف و ترساں رہتے تھے‘ لیکن دینی پیشوا اور علماء اس کے طیش و غضب سے بے خوف اور آزاد تھے‘ سلیم کا خیال تھا کہ ملک کے اندر سخت گیری اور سیاست کے ذریعہ ہی امن و امان قائم رہ سکتا ہے اور ایک حد تک اس کا یہ خیال درست بھی تھا لیکن چوں کہ وہ اعلیٰ درجہ کا مذہبی شخص تھا اس لیے علماء دین کی تحقیر و تذلیل وہ کسی حالت میں بھی گوارا نہیں کر سکتا تھا۔ ایک مرتبہ سلطان سلیم نے محکمہ مال کے ڈیڑھ سو اہل کاروں کو کسی بات پر ناراض ہو کر گرفتار کرایا اور حکم دیا کہ سب کے سر قلم کر دیئے جائیں‘ قسطنطنیہ کے قاضی جمالی نے جب یہ حکم سنا تو فوراً سلطان سے کہا کہ آپ نے یہ حکم غلطی سے دیا ہے آپ اس حکم کو واپس لے لیں اور ان لوگوں کے سر قلم نہ کرائیں کیوں کہ وہ مستحق قتل نہیں ہیں۔ سلطان نے کہا کہ انتظام ملکی میں آپ کو دخل نہیں دینا چاہیے‘ قاضی صاحب نے کہا کہ آپ اس دنیا کے ملک کی بہتری کو مد نظر رکھتے ہیں اور میں آپ کی عالم آخرت میں بھلائی چاہتا ہوں چاہے آپ کا یہ حکم کیسے ہی مصالح ملکی پر بنی ہو لیکن عالم آخرت میں آپ کے نقصان و زیان اور خسران و ہلاکت کا موجب ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ رحم کرنے والے پر انعام و بخشش کرتا اور ظالم کو سخت عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ یہاں تک نوبت پہنچی کہ سلطان کو قاضی جمالی کے منشاء کے موافق سب کو معاف و آزاد کرنا پڑا اور نہ صرف ان کو آزاد ہی کیا بلکہ ان کے عہدوں پر ان کو بد ستور مامور کر دیا‘ اسی طرح ایک مرتبہ سلطان سلیم نے حکم دیا کہ ہمارے ملک سے ایران کے ملک میں ریشم قطعاً نہ جانے پائے‘ ساتھ ہی ان سوداگروں کو جو قسطنطنیہ میں موجود اور ایران کے ملک میں ریشم لے جانے والے تھے گرفتار کرا لیا‘ ان سوداگروں کی تعداد چار سو کے قریب تھی‘ ان کی تمام جائداد ضبط کر لینے اور ان کی گردنیں اڑانے کا حکم ہوا یہ وہ زمانہ تھا کہ سلطان سلیم ایڈریا نوپل کی طرف روانہ ہو رہا تھا اور قاضی جمالی بھی سلطان کے ساتھ تھے‘ انہوں نے سلطان سلیم سے ان سوداگروں کی سفارش کی سلطان نے جواب دیا کہ دنیا کہ دوتہائی باشندوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے ایک تہائی کو قتل کر دینا جائز ہے۔ قاضی صاحب نے کہا اس وقت جب کہ یہ ایک تہائی موجب فساد ہوں‘ سلطان نے کہا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا فساد ہو سکتا ہے کہ اپنے بادشاہ کے حکم کی خلاف ورزی کی جائے‘ قاضی صاحب نے فرمایا کہ ان لوگوں تک حکم سلطانی ابھی تک نہیں پہنچا تھا اس لیے مجرم نہیں قرار پا سکتے‘ اگر اس قسم کی گفتگو کوئی وزیراعظم کرتا تو وہ فوراً قتل ہو چکا ہوتا‘ مگر سلطان نے نہایت غصہ کی حالت میں صرف یہ کہا کہ تم معاملات سلطنت میں دخل نہ دو‘ قاضی صاحب یہ سن کر بہت برہم ہوئے اور بلا آداب بجا لائے اور بلا رخصت طلب کیے ہوئے ناراضگی کے ساتھ چل دیئے اور سلطان سلیم سخت حیرت کے عالم میں خاموش اپنے گھوڑے پر کھڑا رہ گیا‘ سلطان اپنا سر جھکا