تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عبدالرحمن نے اس مباحثے اور مناظرے میں خود دخل دے کر فیصلہ کیا اور اس برپا ہونے والے فتنے کو فرو کیا اس خیال سے کہ مسلمانوں کی توجہ کو دوسری جانب منعطف کر دینے سے آپس کی مخالفتوں اور خانہ جنگیوں کا خطرہ دور ہو جائے گا۔ جہاد کے لیے فوجی بھرتی شروع کی گئی اور ایک زبردست فوج تیار کر کے شمالی عیسائی ریاستوں کے خلاف مہم روانہ ہوئی۔ اس زمانہ میں ریاست ایسٹریاس یعنی سلطنت قسطلہ کے حاکم نے اسلامی علاقے کے متعدد شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور ہر طرف سے ہر ایک عیسائی رئیس اسلامی رقبہ کو دباتا چلا جاتا تھا۔ اس فوج نے اول شاہ اردونی والی قسطلہ کے خلاف پیش قدمی کی۔ اس فوج کی سرداری سلطان محمد نے موسیٰ بن موسیٰ کو سپرد فرمائی۔ یہ موسیٰ بن موسیٰ گاتھ قوم سے تعلق رکھتا تھا اور نو مسلم تھا۔ مثل اس کے اور بھی کئی نو مسلم شاہی فوجوں کی سرداریوں اور صوبوں کی گورنریوں پر مامور تھے۔ آخر نتیجہ اس مہم کا کچھ زیادہ مفید نہ نکلا اور معمولی معرکہ آرائیوں کے بعد اس طرف سے فوج واپس آ گئی۔ اب اس فوج کو برشلونہ کی جانب بھیجا گیا کیونکہ وہاں بھی عیسائیوں نے جادئہ اطاعت سے قدم باہر رکھا تھا۔ وہاں سے بھی معمولی مال غنیمت لے کر یہ فوج واپس آ گئی۔ بغاوتوں کا استیصال ۲۳۹ھ میں باشندگان طیطلہ نے یہ محسوس کر کے کہ دربار قرطبہ پر فقہا کا قبضہ و اثر زیادہ ہو گیا ہے اور عیسائی فدائیوں کو بلا تامل قتل کیا جانے لگا ہے اپنے آپ کو خطرہ میں محسوس کر کے یا شمالی عیسائیوں کی قرار داد کے موافق سلطنت اسلامیہ کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی غرض سے بغاوت کی تیاری کی۔ یہ واضح رہے کہ سلطان محمد نے تخت نشین ہو کر جب عیسائی شہداء کی تعداد میں بے دریغ اضافہ کرنا شروع کر دیا تو عیسائیوں نے اپنی اس حرکت ناشائستہ کو بالکل ترک کر دیا تھا۔ اس کے عوض اب طیطلہ کی بغاوت کا اہتمام ہونے لگا۔ اہل طیطلہ نے اپنے عربی النسل گورنر کو گرفتار کر کے دربار قرطبہ میں پیغام بھیجا کہ سلطان عبدالرحمن ثانی نے ہمارے جن لوگوں کو بطور یرغمال قرطبہ میں لے جا کر زیر نگرانی رکھا تھا ان کو واپس کر دو ورنہ ہم تمہارے گورنر کو قتل کر کے خود مختاری کا اعلان کر دیں گے۔ سلطان محمد نے اہل طیطلہ کی درخواست کو منظور کر کے ان لوگوں کو جو بطور یرغمال قرطبہ میں موجود تھے طیطلہ بھیج دیا۔ اہل طیطلہ نے بجائے اس کے کہ وہ اب راہ راست پر آ جاتے سلطان محمد کی کمزوری کا یقین کر کے علانیہ علم بغاوت بلند کر دیا اور طیطلہ کو ہر طرح مضبوط کر کے شمالی عیسائی سلاطین سے امداد طلب کی۔ اہل طیطلہ بار بار بغاوت کر چکے تھے مگر تعجب ہے کہ اب تک کسی بادشاہ نے بھی طیطلہ کے قلعہ اور شہر پناہ کو منہدم کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس کا سبب بھی مسلمانوں کی وہی بلند نظری ہے جس نے ان کو شمالی سرحدی ریاستوں کے استیصال سے باز رکھا ورنہ یہ کام اس سے پہلے ان کے لیے نہایت ہی آسان اور معمولی تھا۔ سلطان محمد خود فوج لے کر ۲۴۰ھ میں قرطبہ سے طیطلہ کی جانب روانہ ہوا۔ ابھی سلطان محمد طیطلہ تک نہیں پہنچنے پایا تھا کہ ریاست ایسٹریاس کی فوج اور پہاڑی جنگ جو اہل طیطلہ کی امداد کے لیے طیطلہ میں داخل ہو گئے۔ سلطان نے طیطلہ کی فتح کو دشوار دیکھ کر یہ ترکیب کی کہ اپنی فوج کے بڑے حصہ کو پہاڑیوں‘ ٹیلوں اور جھاڑیوں میں چھپا کر ایک چھوٹے سے حصے کو میدان سلیط میں جو ان ٹیلوں اور جھاڑیوں کے