تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلطان سلیم کو شام و مصر کی طرف متوجہ ہونے کا موقعہ نہ ملتا تو وہ ضرور ایک مرتبہ پھر ایران پر فوج کشی کر کے اسمٰعیل صفوی سے بقیہ ملک بھی چھین لیتا اور ترکستان تک فتح و فیروزی کے ساتھ چلا جاتا‘ مگر اس کے بعد سلیم کو خود ایران کی طرف آنے کا موقعہ نہیں ملا اور اس کے سرداروں نے مفتوحہ ملک کو اپنے قبضہ سے نہیں نکلنے دیا‘ اس حملہ اور لڑائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرق کی جانب سلطنت عثمانیہ کی حدود بہت وسیع ہو گئیں اور نہایت زرخیز اور سیر حاصل صوبوں کا اضافہ ہوا اور آئندہ کے لئے مشرق کی جانب سے کسی حملہ کا خطرہ باقی نہیں رہا‘ اسی سلسلے میں یہ بات بھی بیان کر دینے قابل ہے کہ اسمٰعیل صفوی کی چہیتی بیوی جب سلطان سلیم کے قبضہ میں آ گئی تو شاہ اسمٰعیل صفوی نے سلطان سلیم کے پاس اپنے ایلچی بھیجے۔ کہ میری بیوی کو میرے پاس بھیج دو یہ وہ زمانہ تھا کہ سلطان سلیم ایشیائے کوچک کے شہر اماسیہ میں قرہ باغ سے آ کر مقیم اور موسم سرما کا زمانہ بسر کر رہا تھا‘ سلطان سلیم سے یہی توقع تھی کہ وہ شاہ اسمٰعیل صفوی کی بیوی کو اس کے پاس بھیج دے گا‘ لیکن سلطان چوں کہ شاہ اسمٰعیل صفوی کو مرتد اور بے دین خیال کرتا تھا اور اس کے اعمال ناشائستہ کی وجہ سے بہت ناراض تھا لہٰذا سلطان نے اس کے ساتھ کسی قسم کی مروت کا برتائو نہیں کرنا چاہا۔ اب تک شاہ اسمٰعیل صفوی کی بیوی عزت و احترام کے ساتھ نظر بند تھی‘ سلطان نے اس کے بھیجنے سے صاف انکار کر دیا اور جنگ خالدران سے پانچ چھے مہینے کے بعد شاہ اسمٰعیل صفوی کی بیگم کا نکاح اپنے ایک سپاہی جعفر چلپی کے ساتھ کر دیا اسمٰعیل صفوی کو یہ سن کر کہ اس کی بیوی ایک ترک سپاہی کی بیوی بن کر اس کے گھر میں مسرت و شادمانی کی زندگی بسر کر رہی ہے سخت صدمہ ہوا اور جب تک زندہ رہا اسی حسرت و ملال میں مبتلا رہا۔ فتح مصر و شام اوپر کسی باب میں ذکر آچکا ہے کہ خاندان ایوبیہ کے ساتویں بادشاہ الملک الصالح نے مصر میں ممکوکی فوج قائم کی تھی جس کو غلاموں کی فوج کہنا چاہیے‘ بہت جلد ان غلاموں نے مصر کے تخت پر قبضہ کر لیا اسی زمانہ کے قریب ہندوستان میں بھی غلاموں کا خاندان فرماں روا تھا‘ لیکن یہاں ہندوستان میں غلاموں کے خاندان کے صرف دو بادشاہ غلام تھے‘ باقی انہیں غلاموں کی اولاد نسلاً بعد نسل تخت نشین ہوتی رہی‘ مصر میں اس کے خلاف یہ دستور قائم ہوا تھا کہ ایک فرمانروا کے فوت ہونے پر غلاموں ہی میں سے کسی کو منتخب کر کے تخت حکومت پر بٹھایا جائے مصر کے یہ غلام بادشاہ مملوکی کہلاتے تھے‘ سلطان سلیم کے زمانہ تک ان کی سلطنت مصر میں قائم تھی اور انہی سلاطین مصر کی حفاظت میں عباسی خلفاء مصر کے اندر رہتے تھے مصر کی مملوکی سلطنت بھی بڑی شان دار اور معزز سلطنت تھی ان مملوکیوں نے عالم اسلام کی دو سب سے بڑی اور اہم خدمات انجام دی تھیں‘ ایک تو انھوں نے فلسطین و شام کو عیسائیوں کے حملوں سے بچایا اور ہمیشہ کے لئے صلیبی چڑھائیوں کا استیصال کر دیا دوسرے انھوں نے مغلوں کے سیلاب عظیم کو آگے بڑھنے سے روک دیا اور چنگیز و ہلاکو وغیرہ کی فوجوں کو شکست دے کر بھگا دیا‘ عجب بات ہے کہ ان فتح مند مغلوں نے مصر کے غلاموں یعنی مملوکیوں سے جس طرح شکست کھائی اسی طرح ہندوستان کے غلام خاندان سے انھوں نے ہمیشہ نیچا دیکھا گویا ان کی قسمت میں یہی لکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کے معزز ترین اور اعلیٰ خاندانوں کو برباد کریں‘ لیکن جب مسلمانوں کے