تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھاگ کر اور ایک غریب ملاح کی شکل بنا کر ابوالفارس بادشاہ تونس کے پاس چلا گیا۔ ابوالفارس نے اس کو عزت و تکریم کے ساتھ اپنے پاس رکھا اور مدد دینے کا بھی وعدہ کیا۔ سلطان محمد نہم سلطان محمد نہم نے تخت نشین ہو کر امراء کو اپنا طرف دار بنایا۔ مگر اس نے یہ غلطی کی کہ وزیر یوسف کو اپنا مخالف بنا لیا اور اس کی تخریب کے درپے ہوا۔ وزیر یوسف غرناطہ سے پندرہ سو آدمیوں کو ہمراہ لے کر مرسیہ بھاگ آیا۔ اور یہاں سے خط و کتابت کے ذریعہ بادشاہ قسطلہ سے اجازت لے کر اس کے پاس چلا گیا اور بادشاہ قسطلہ مسمی جان کو محمد ہشتم کی امداد پر آمادہ کرنا چاہا۔ اس عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے کا بہت اچھا موقعہ پایا اور کہا کہ اپنے ہمراہیوں میں سے بااثر اشخاص کا ایک وفد بادشاہ تونس کے پاس بھیجو اور اس کو بھی امداد پر آمادہ کرو۔ چنانچہ وفد گیا اور ابوالفارس بادشاہ تونس نے پانچ سو سوار اور ایک معقول رقم بطور امداد دے کر اپنے جہازوں میں سوار کرا کر محمد ہشتم کو اندلس کی طرف روانہ کر دیا۔ جب سلطان محمد ہشتم اندلس کے ساحل پر اترا تو وزیر یوسف کی کوشش سے صوبہ المیریہ کے باشندوں نے اس کی امداد کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ محمد نہم نے محمد ہشتم کے آنے کی خبر سن کر اس کے مقابلہ کو فوج بھیجی۔ مگر جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے پہنچیں تو یوسف کی کوشش سے محمد نہم کی فوج کا بڑا حصہ محمد ہشتم کی فوج سے آ ملا اس طرح باقی لوگ بھاگ کر غرناطہ آئے۔ محمد ہشتم غرناطہ کی طرف بڑھا۔ اور ۸۳۳ھ میں غرناطہ کو فتح کر کے محمد نہم کو گرفتار و قتل کیا۔ اور خود تخت نشین ہوا۔ محمد ہشتم نے دوبارہ سلطنت حاصل کرنے کے بعد اپنے وزیر یوسف کی رائے کے موافق اپنے طرز عمل کو تبدیل کر دیا۔ اور رعایا کی دل جوئی میں مصروف ہوا۔ اب عیسائی بادشاہ قسطلہ کی طرف سے اطمینان حاصل کرنے کے لیے محمد ہشتم نے چاہا کہ اس سے دوامی صلح ہو جائے لیکن عیسائی بادشاہ نے کہا کہ تم ہم کو خراج دینا قبول کرو تو دوامی صلح ہو سکتی ہے۔ اس کو محمد ہشتم نے نامنظور کیا۔ مگر چونکہ شاہ قسطلہ کو بھی بعض اندرونی پیچیدگیوں کی وجہ سے اطمینان حاصل نہ تھا۔ لہٰذا کوئی فتنہ برپا نہ ہوا۔ چند روز کے بعد شاہ قسطلہ نے حملہ کیا۔ متعدد لڑائیاں ہوئیں۔ کبھی مسلمانوں کو کبھی عیسائیوں کو کامیابی ہوئی۔ ابھی یہ سلسلہ لڑائیوں کا جاری ہی تھا کہ محمد ہشتم کے ایک رشتہ دار یوسف ابن الاحمر نے علم بغاوت بلند کیا۔ اور اپنے دوستوں کی مدد سے البیرہ میں سلطنت غرناطہ کے تخت کا مدعی ہو کر شاہ قسطلہ سے خط و کتابت کر کے اس بات کا اقرار کیا کہ اگر آپ کی مدد سے میں سلطنت غرناطہ پر قابض و متسلط ہو گیا تو سالانہ خراج بلا چون و چرا ادا کیا کروں گا۔ اور ضرورت کے وقت اپنی فوج سے آپ کا مدد گار رہوں گا۔ عیسائیوں نے اس کو تائید غیبی سمجھا۔ اور شاہ قسطلہ نے فوراً اپنی فوجیں مقام البیرہ میں یوسف کی مدد کے لیے بھیج دیں۔ یہاں محمد ہشتم نے حملہ کیا اور جنگ عظیم برپا ہوئی بادشاہ قسطلہ بھی اس جنگ میں خود موجود تھا۔ آخر طرفین سے بہت سے آدمی کام آئے۔ اور غالب و مغلوب کا فیصلہ ہوئے بغیر شاہ قسطلہ یوسف ابن الاحمر کو لیے ہوئے قرطبہ کی جانب اور محمد ہشتم غرناطہ کی جانب چلا گیا۔ شاہ قسطلہ نے قرطبہ میں دربار عام منعقد کر کے یوسف ابن الاحمر کو بادشاہ غرناطہ بنایا اور اس کو ہر قسم کی مدد دینے کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد یوسف کو فوج دے کر