تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دینے سے انکار کر کے اس بات کا وعدہ کیا کہ میں اس کو نہایت احتیاط کے ساتھ قید اور نظر بند رکھوں گا بشرطیکہ آپ اس کے نان و نفقہ اور اخراجات کے معاوضہ میں ایک رقم میرے پاس بھجواتے رہیں‘ چونکہ ان دنوں مسلسل بغاوتوں سے سلطان محمد خان زیادہ فکر مند ہو گیا تھا۔ اور اسی لیے وہ اور بھی زیادہ اس حکمت عملی پر عمل کرنا ضروری سمجھتا تھا کہ قیصر یا دوسرے عیسائیوں سے لڑائیاں نہ چھیڑی جائیں۔ چنانچہ اس نے قیصر کی بات کو منظور کر لیا اور مصطفیٰ باغی کے قید و نظر بند رکھنے کے معاوضہ میں ایک مناسب رقم بھجوانی بھی منظور کر لی۔ اس بغاوت کے فرو ہونے کے بعد بھی سلطان محمد خان کو مصطفیٰ باغی کا زیادہ خیال رہا اور اس نے قسطنطنیہ کے قیصر سے اپنے تعلقات کو زیادہ خوشگوار و استوار بنانا ضروری سمجھ کر خود قسطنطنیہ جانے کا قصد کیا جب کہ وہ ایشیائے کوچک سے درہ دانیال کو عبور کر کے گیلی پولی ہوتا ہوا ایڈریا نوپل کو آ رہا تھا۔ قیصر قسطنطنیہ نے سلطان محمد خان کی آمد کا حال سن کر بڑی آئو بھگت کی اور اس کا نہایت شاندار استقبال کر کے قسطنطنیہ میں لایا۔ یہاں سلطان و قیصر میں دوبارہ عہد نامہ دوستی کی تجدید ہوئی۔ اس کے بعد سلطان کو پھر گیلی پولی کی طرف جانا پڑا۔ جہاں ۸۲۵ھ میں سلطان محمد خان کا سکتہ کے مرض میں مبتلا ہو کر انتقال ہوا۔ سلطان محمد خان کے عہد پر تبصرہ! سلطان محمد خان جنگ انگورہ کے وقت ۲۷ سال کی عمر رکھتا تھا۔ جنگ انگورہ کے بعد وہ ایشیائے کوچک کے قصبہ املیسیہ میں خود مختار حاکم بنا اور بھائیوں سے لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا۔ گیارہ سال تک وہ بھائیوں کے ساتھ زور آزمائی میں مصروف رہ کر سب پر غالب اور مطلق العنان فرماں روا عثمانی سلطنت کا بن گیا۔ آٹھ سال تک اس نے بحیثیت سلطان حکومت و فرماں روائی کی اس کا عہد حکومت فتنوں اور فسادوں سے لبریز تھا۔ اس نے ایسی معتدل اور مفید حکمت عملی اختیار کی جس سے سلطنت عثمانیہ جو قریب المرگ ہو چکی تھی پھر تندرست اور مضبوط ہو گئی۔ اسی لیے بعض مؤرخین نے اس کو نوح کا خطاب بھی دیا ہے یعنی اس نے سلطنت عثمانیہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچا کر نجات کے ساحل پر لگا دیا۔ سلطان محمد خان اول سب سے پہلا عثمانی سلطان ہے جس نے اپنے شاہی خزانہ سے ایک معقول رقم خانہ کعبہ اور مکہ معظمہ کے باشندوں کے لیے مخصوص کی جو سالانہ برابر مکہ معظمہ میں پہنچ کر مستحقین میں تقسیم اور خانہ کعبہ کی حفاظت و نگرانی کے کاموں میں صرف ہوتی تھی اسی لیے معتضد باللہ عباسی خلیفہ مصر نے اس سلطان کو خادم الحرمین الشریفین کا خطاب دیا جس کو اس سلطان نے اپنے لیے موجب عز و افتخار تصور کیا۔ اسی خطاب نے آئندہ ایک زمانے میں ترقی کر کے عثمانیوں کو خلیفۃ المسلمین بنا کر چھوڑا۔ وفات کے وقت سلطان محمد خان کی عمر ۴۷ سال کی تھی۔ اس کا بڑا بیٹا مراد خان ثانی جس کی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ ایشیائے کوچک میں ایک فوج کی سپہ سالاری پر مامور تھا۔ وزرائے سلطنت نے چالیس روز تک سلطان محمد خان کی وفات کو چھپایا اور مراد خان ثانی کے پاس فوراً خبر بھجی کہ تم بلا تامل دارالسلطنت میں پہنچ کر مراسم تخت نشینی ادا کرو۔ چالیس روز کے بعد سلطان کی لاش کو گیلی پولی سے بروصہ میں لا کر دفن کیا گیا۔