تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مجبور کر دیا۔ بہت سے باطنیوں نے سلطان سلجوقی سے اس شرط پر امان کی درخواست کی کہ ہم سب حسن بن صباح کے پاس قلعہ الموت میں چلے جائیں گے۔ اور نواح اصفہان کو بالکل خالی کر دیں گے چنانچہ ان کو اسی شرط پر حسن بن صباح کے پاس جانے کی اجازت دی گئی۔ احمد بن عطاش کو گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا۔ اور اس کی کھال میں بھس بھرا گیا۔ اس کی بیوی نے خود کشی کر لی۔ اس طرح باطنیہ اصفہان کا تو خاتمہ ہو گیا۔ مگر حسن بن صباح کی طاقت و جمعیت میں خوب اضافہ ہو گیا۔ کیونکہ اب وہی تمام باطنیوں کا مرکز اور قبلہ توجہ رہ گیا تھا۔ باطنیوں کے ہزار ہا افراد بحیثیت داعی شام و عراق و فارس میں پھیلے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں علانیہ انہوں نے اپنی دعوت کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ بعض قلعوں پر بھی وہ قابض و متصرف ہو گئے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ مسلمانوں نے ہر طرف سے ان پر حملہ آور ہو کر تمام قلعے ان سے چھین لیے اور حکومت و قوت ان سے جدا کر لی۔ لیکن الموت اور اس کے نواح پر حسن بن صباح کا قبضہ برابر جاری رہا۔ حسن بن صباح کا صحیح نام و نسب اس طرح ہے حسن بن علی بن احمد بن جعفر بن حسن بن صباح الحمیری سلجوقیوں کی خانہ جنگیوں اور ضعف و اختلال نے باطنیوں کی حکومت کو مستقل و پائیدار ہونے کا موقعہ دیا۔ جس کو بعد میں فدائیوں کی سلطنت سلطنت اسماعیلیہ‘ سلطنت حشاشین وغیرہ ناموں سے یاد کیا گیا۔ حسن بن صباح جس طرح اس سلطنت و حکومت کا بانی تھا۔ اسی طرح وہ اپنے فرقہ اور مذہب کا بھی بانی سمجھا گیا۔ اس نے عام باطنیوں کے خلاف بعض نئے نئے طریقے اعمال و عبادات میں ایجاد کیے۔ اس کے تمام مریدین اس کو سیدنا کہتے تھے۔ عام طور پر شیخ الجبل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ وہ ۳۵ سال قلعہ الموت پر قابض و حکمران رہا۔ اس عرصہ میں ایک دن کے لیے بھی اس قلعہ سے باہر نہیں نکلا۔ حسن بن صباح کی وفات ۹۰ سال کی عمر پا کر ۵۱۸ھ میں بتاریخ ۲۸ ربیع الآخر فوت ہوا۔ اس نے اپنے مریدوں میں وحشی اور پہاڑی لوگوں کی ایک ایسی جماعت بنائی تھی جو حسن بن صباح کے اشارے پر جان دینا اپنا مقصد زندگی تصور کرتے تھے۔ ان لوگوں کو فدائیوں کی جماعت کہا جاتا تھا۔ ان فدائیوں کے ذریعہ حسن بن صباح دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں۔ سپہ سالاروں اور اپنے مخالفوں کو ان کے گھروں میں قتل کرا دیتا تھا۔ اس طرح اس کی دھاک دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اور بڑے بڑے بادشاہ اپنے محلوں اور دارالحکومتوں میں اطمینان کے ساتھ نہیں سو سکتے تھے۔ حسن بن صباح اور اس کی جماعت کو عام طور پر مسلمان نہیں سمجھا جاتا اور حقیقت بھی یہ ہے کہ یہ ملحدوں کا ایک گروہ تھا۔ جس کو دین اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر حیرت ہے کہ ہمارے زمانے کا ایک احمق جو خوش قسمتی سے ایک دشمن اسلام فرقہ کا پیشوا اور لیڈر بھی سمجھا جاتا ہے۔ حسن بن صباح اور اس کے متبعین ملاحدہ کے اعمال و حرکات کو دین اسلام سے منسوب کر کے تعریض کرتا اور اخباروں میں مضامین شائع کراتا ہے مگر ذار نہیں شرماتا۔ اور اپنے جہل و نادانی کو علم قرار دے کر فخر و مباہات کی مونچھوں پر تائو دیتا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کی غفلت بھی دیدنی ہے کہ وہ حسن بن صباح کے قائم کیے ہوئے نزاریہ گروہ کی حقیقت و ماہیت اور اعمال و عقائد سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان باطنیہ فدائیہ ظالموں کو بزرگان دین سمجھ کر حیران و ششدر اور اس دشمن اسلام مضمون نگار کے مضامین کو نعمت عظمیٰ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ ملحدو بے دین اور مسلمانوں کے بد ترین