تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خلاف متحد ہو گئے ہیں تو اس نے اپنے سفیر ان دونوں عیسائی بادشاہوں کے پاس بھیجو کر ان سے دوستانہ تعلقات پیدا کیے اور وعدہ کیا کہ جب تم قسطلہ پر حملہ آور ہو گئے تو میں بھی تمہارے مقصد کی کامیابی کے لیے ادھر سے حملہ کروں گا۔ چنانچہ ۸۵۴ھ میں سلطان ابن عثمان نے قسطلہ کی سلطنت پر حملہ کیا اور صوبہ مرسیہ کو تاخت و تاراج کرتا ہوا اور قسطلہ کی فوجوں کو دور تک بھگاتا ہوا بہت سے مال غنیمت کے ساتھ غرناطہ واپس آیا۔ اگلے سال سلطان ابن عثمان نے صوبہ اندلوسیہ پر حملہ کیا۔ اور مرسیہ کی طرح اس صوبہ کو بھی خوب تباہ و برباد کرتا رہا۔ اگر سلطان ابن عثمان چاہتا تو قرطبہ پر قبضہ کر سکتا تھا۔ مگر اس نے قرطبہ کی طرف التفات نہ کیا۔ ۸۵۸ھ تک اربونیہ و ارغون کی مخالفت سلطنت قسطلہ سے جاری رہی اور ابن عثمان بھی ان دنوں اول الذ کر عیسائی سلطنتوں کی امداد کرتا رہا۔ شاہ قسطلہ کی صلح ہو گئی تو اس نے ابن اسماعیل کو جو ان ایام میں سرحد قسطلہ پر خاموش و منتظر تھا۔ فوج دے کر ۸۹۵ھ میں ابن عثمان پر حملہ آور کرایا۔ ابن اسماعیل کو چونکہ اکثر مسلمان امراء کی ہمدردی حاصل تھی۔ اس لیے اس کے مقابلے میں ابن عثمان کو شکست ہوئی وہ مع چند ہمراہیوں کے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ گزیں ہوا اور ابن اسماعیل غرناطہ میں آ کر تخت نشین ہوا۔ سلطان ابن اسماعیل ابن اسماعیل کی تخت نشینی کے چند ہی روز بعد شاہ قسطلہ مسمی جان کا انتقال ہو گیا۔ اور اس کا بیٹا تخت نشین ہوا۔ ابن اسماعیل کی تخت نشینی کے بعد چونکہ قسطلہ کا بادشاہ جان فوت ہو چکا تھا۔ اس کے بیٹوں‘ پوتوں نے بر سر اقتدار ہو کر ابن اسماعیل کے ساتھ پھر سلسلہ جنگ شروع کر دیا اور ۸۷۰ھ تک برابر عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان لڑائیوں میں سلطان ابن اسماعیل کے بیٹے ابوالحسن نے بڑی ناموری حاصل کی۔ ۸۷۰ھ میں ابن اسماعیل نے وفات پائی اور اس کا بیٹا ابوالحسن تخت نشین ہوا۔ سلطان ابوالحسن سلطان ابولحسن چونکہ ایک تجربہ کار سپہ سالار بھی تھا۔ اس لیے تخت نشین ہو کر اس نے عیسائیوں کے ساتھ لڑائیوں کے سلسلہ کو بحسن و خوبی جاری رکھا۔ چند روز کے بعد مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا یہ عجیب سامان ہوا کہ سلطنت قسطلہ کے نوجوان بادشاہ فردی نند کی شادی سلطنت ارغون کی شہزادی ازبیلا کے ساتھ ہوئی۔ اور اس شادی کے ساتھ ہی ارغون کی سلطنت‘ قسطلہ کی سلطنت میں شامل ہو کر ایک زبردست عیسائی سلطنت بن گئی۔ فردی نند اور ازبیلا دونوں بے حد متعصب اور پادری مزاج واقع ہوئے تھے۔ اس لیے انہوں نے مل کر اس بات کا تہیہ کیا کہ جزیرہ نمائے اندلس سے اسلامی سلطنت کا نام و نشان مٹا دینا چاہیئے۔ اور اس جزیرہ نما میں ایک بھی مسلمان قسم کھانے کو زندہ نہ چھوڑنا چاہیئے۔ ادھر فردی نند اور ازبیلا میں یہ قرار داد ہو رہی تھی۔ ادھر سلطان ابوالحسن نے مصلحت وقت سمجھ کر اس عیسائی سلطنت کے ساتھ صلح کی سلسلہ جنبانی شروع کی۔ چنانچہ فردی نند نے ۸۸۰ھ میں سلطان ابوالحسن کو لکھا کہ اگر تم صلح کے خواہاں ہو تو بلا عذر ہم کو خراج دینا منظور کرو۔ ابوالحسن کی جگہ اگر کوئی دوسرا سلطان غرناطہ کے موجودہ تخت پر ہوتا تو وہ شاید ایسا سخت جواب نہ دے سکتا۔ مگر ابوالحسن نے فردی نند کو لکھا کہ غرناطہ کے دار الضرب میں اب بجائے سونے کے سکوں کے فولادی شمشیریں تیار ہوتی ہیں تاکہ عیسائیوں کی گردنیں اڑائی جائیں۔ اس