تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مسلمانوں نے اپنے سپہ سالار اور امیر کے شہید ہو جانے کے بعد اپنے آپ کو میدان جنگ میں قائم رکھنا مناسب نہ سمجھا اور وہ رات ہی کو وہاں سے کوچ کر گئے‘ صبح کو جب عیسائیوں نے مسلمانوں سے میدان کو خالی دیکھا تو انہوں نے بھی وہاں قیام مناسب نہ سمجھا مسلمانوں کا تعاقب کرنا تو بڑی بات تھی چارلس مارٹل نے اپنے دارالحکومت کی طرف واپس جانے میں اس لیے زیادہ عجلت سے کام لیا کہ کہیں مسلمان کمیں گاہ میں نہ چھپے بیٹھے ہوں اور ایسا نہ ہو کہ ہم پر حملہ آور ہو کر قیامت برپا کر دیں‘ اس لڑائی میں عیسائیوں کے لاتعداد آدمی مارے گئے اور مسلمانوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کا سپہ سالار کام آیا‘ بہرحال اس لڑائی کے بعد اس مہم کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمان زیادہ ملک فتح نہ کر سکے‘ اب چاہو تو اس کو مسلمانوں کی شکست سمجھ لو چاہو برابر کی زور آزمائی قرار دے لو اور چاہو تو عیسائیوں کی شکست تصور کر لو‘ یہ لڑائی ۱۱۴ھ میں واقع ہوئی۔ عبدالملک بن فہری اس لڑائی کے انجام اور عبدالرحمن کی شہادت کا حال جب گورنر افریقہ عبید بن عبدالرحمن کو معلوم ہوا تو اس نے عبدالملک بن قطن فہری کو اندلس کا امیر مقرر کیا اور حکم دیا کہ فرانسیسیوں سے عبدالرحمن غافقی کا انتقام ضرور لینا چاہیئے‘ عبدالملک بن قطن فہری نے اندلس میں داخل ہو کر ۱۱۵ھ میں زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی اور ملک کے اندرونی انتظامات سے فارغ ہو کر فرانس کے ملک پر حملہ کی تیاری کی۔ عبدالملک بن قطن ایک تجربہ کار اور ہوشیار شخص تھا‘ اس لیے اس سے بڑی بڑی توقعات تھیں‘ وہ اپنے ساتھ کچھ فوج افریقہ سے بھی لایا تھا‘ مگر عبدالملک سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے موسم برشگال میں فرانس کی جانب کوچ کیا‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جبل البرتات سے گزرتے ہی ندی نالوں اور دریائوں نے فوج کے عبور کو دشوار کر دیا‘ اس حالت کو دیکھ کر عیسائی قزاقوں نے چھاپے مارنے شروع کر دیئے‘ فوج کو دریائوں اور ندی نالوں میں گھرا ہوا دیکھ کر عبدالملک نے واپسی کا ارادہ کیا اور بہ مشکل نقصان اٹھا کر فوج کو واپس لایا‘ اس آنے جانے میں وقت بھی ضائع ہوا‘ آدمیوں کا بھی نقصان ہوا اور کام بھی کچھ نہ ہوا۔ عبدالملک کی معزولی گورنر افریقہ نے ناخوش ہو کر عبدالملک کو امارت اندلس سے معزول کر دیا اور اس کی جگہ عتبہ بن حجاج سلولی کو امیر اندلس بنا کر بھیجا۔ عتبہ بن حجاج سلولی عتبہ بن حجاج سلولی نے ۱۱۷ھ میں وارد اندلس ہو کر زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی اور عبدالملک بن قطن فہری کو کسی چھوٹے سے علاقے کا عامل مقرر کر دیا‘ یہ عتبہ کی غلطی تھی کہ اس نے ایک ایسے شخص کو جو تمام ملک اندلس کا فرماں روا تھا ایک چھوٹے سے عامل کی حیثیت سے اپنی ماتحتی میں رکھا‘ اسی قسم کی غلطی عثمان لخمی کے متعلق اس سے پہلے سرزد ہو چکی تھی۔ مناسب یہ تھا کہ بعد میں آنے والے امیر عثمان لخمی کو یا تو بالکل بے دست وپا کر کے رکھتے‘ یا اس کو اندلس میں نہ رہنے دیتے‘ بلکہ افریقہ واپس بھیج دیتے‘ اسی طرح عتبہ کو چاہیئے تھا کہ عبدالملک کو واپس افریقہ بھیج دیتا اور کم سے کم کسی حصہ ملک کی حکومت ہرگز سپرد نہ کرتا‘ بہرحال عتبہ نے ایک سیاسی غلطی ضرور کی۔