تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے روانہ ہوا ادھر سے اصبح بن عبداللہ نے ادھر سے سلطان حکم نے حملہ کر کے ان باغیوں کو خوب قتل کیا اور پھر قتل کی ممانعت کا حکم دے کر باغیوں کی گرفتاری کا حکم دیا۔ بہت جلد چھائونیوں سے فوجیں بھی آگئیں اور ہزارہا باغی گرفتار کر لیے گئے۔ مالکیوں کی جلا وطنی اب مجبور ہو کر سلطان حکم نے حکم دیا کہ مالکی مذہب کے جس قدر پیرو قرطبہ اور اس کے نواح میں موجود ہیں سب کو جلا وطن کر دیا جائے یہ جلا وطنی کا حکم صرف ان لوگوں کے لیے تھا جو علم و فضل سے بہرہ نہ رکھتے تھے۔ ان میں اکثر نو مسلم عیسائی شامل تھے۔ قاضی یحییٰ اور دوسرے علماء کو بوجہ ان کے علم و فضل کے معاف کیا گیا اور باوجود اس کے کہ اصل موجب فساد انہی لوگوں کا وجود ہوا تھا۔ سلطان حکم نے یہی کافی سمجھا کہ ان کے معتقدین کو جلا وطن کر کے ان کی طاقت کو توڑا اور ان کے علم و فضل سے خود فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ معلوم ہو کر تعجب ہوتا ہے کہ یہی قاضی یحییٰ چند سال کے بعد سلطان حکم کے مصاحب اور بے تکلف مشیر خاص تھے۔ ان مالکی لوگوں کی جلا وطنی کے حکم کی تعمیل بڑی سرگرمی سے عمل میں لائی گئی۔ یہ لوگ جب ساحل اندلس پر پہنچے تو ان میں سے آٹھ ہزار آدمی جو اپنے ساتھ زن و فرزند بھی رکھتے تھے مراکش میں جانے پر آمادہ ہوئے اور وہاں کے حاکم ادریس نے ان کے آنے کو اس لیے غنیمت سمجھا کہ اس کے دارالسلطنت شہر فیض یا تنجیر کی آبادی اور رونق میں اضافہ ہو گا جہاں یہ بڑے شوق سے آباد ہو گئے۔ اور پندرہ ہزار مالکی جہازوں میں سوار ہو کر اسکندریہ (مصر) پہنچے اور اسکندریہ پر قابض ہو گئے۔ آخر وہاں سے بھی نکالے گئے اور جزیرہ اقریطش (کریٹ) پر قابض ہوئے۔ وہاں انہوں نے اپنی حکومت قائم کی جو سو برس تک ان کی اولاد کے قبضہ میں رہی جیسا کہ جلد دوم میں ان کا ذکر آ چکا ہے۔ اس کے بعد ہی حزم بن وہب نے مقام باجہ میں علم بغاوت بلند کیا اس بغاوت کا انجام یہ ہوا کہ حزم نے سلطانی فوج کے مقابلہ میں شکست کھائی اور عفو تقصیرات کا خواہاں ہوا۔ سلطان نے اس کی خطا معاف کر دی۔ اب اور بھی اس بات کا یقین ہو گیا کہ ملک کی حالت ابھی تک قابل اطمینان نہیں اور بغاوت کے جراثیم جابجا موجود ہیں۔ فرانس پر حملہ سلطان حکم کو تخت نشین ہوئے قریباً بیس سال ہو گئے تھے۔ اس بیس سال کے عرصہ میں اس کو مسلسل ملک کی اندرونی بغاوتوں اور عیسائیوں کے بیرونی حملوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ زیادہ وقت اس کا بغاوتوں ہی کے فرو کرنے میں صرف ہوا۔ عیسائیوں پر حملہ آور ہونے کی فرصت و مہلت نہ پاسکا۔ اب بظاہر ملک میں خاموشی دیکھ کر حکم نے ایک جرار فوج تیار کی اور اپنے حاجب عبدالکریم بن عبدالواحد کی سرداری میں شمالی سمت کو عیسائیوں کے مقابلے کے لیے روانہ کی۔ حاجب عبدالکریم نے ریاست السیٹریاس سے صرف اظہار فرماں برداری ہی کو غنیمت سمجھا اور سیدھا ملک فرانس میں جبل البرتات کے اس طرف پہنچ کر قتل و غارت گری اور فتوحات میں مصروف ہوا۔ یہ مہم ۲۰۰ھ میں ملک فرانس کی طرف روانہ ہوئی تھی ۲۰۳ھ تک عبدالکریم نے ملک فرانس میں جنگ و پیکار کے سلسلے کو جاری رکھا۔ سلطان حکم اور اس کے سپہ سالاروں کی یہ غلطی تھی کہ وہ صرف شارلیمین کی حکومت کو اپنا حریف سمجھتے اور اسی کے حدود حکومت میں پہنچ کر وہاں کے شہروں کو فتح کرتے تھے۔ گاتھک مارچ کی ریاست