تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بایدو خان ابن طراقائی ابن ہلاکو خان کیخا توخان کے بعد اس کا چچا زاد بھائی بایدو خان تخت نشین ہوا۔ ۶۹۶ھ میں ارغون آقا اویرات جو قریباً تیس سال تک شاہان مغلیہ کی طرف سے خراسان وغیرہ علاقوں پر حکومت کرتا رہا تھا۔ فوت ہو گیا۔ اس کا بیٹا امیر نوروز بیگ شہزادہ غازان خان ابن ارغون خان ابن ابا قاخان کے پاس چلا گیا۔ اور اس کی مصاحبت میں داخل ہو کر غازان خان کو اسلام کے قبول کرنے کی ترغیب دی۔ غازان خان ان ایّام میں خراسان کا حاکم تھا۔ بایدو خان اور غازان خان میں اس لیے ملال و مخالفت پیدا ہوئی کہ غازان خان اپنے آپ کو زیادہ مستحق سلطنت سمجھتا تھا۔ غازان خان نے امیر نوروز بیگ کی رہبری و ترغیب سے شیخ صدر الدین حموی کو بلا کر ان کے ہاتھ پر دین اسلام قبول کیا۔ اور اسلامی نام محمود خان رکھا۔ غازان خان کے اسلام قبول کرتے ہی بہت سے مغل سرداروں نے دین اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد بایدو خان اور سلطان محمود خان (غازان خان) کے درمیان ناچاقی بڑھتی گئی۔ اور نوبت محاربہ و مقاتلہ تک پہنچی۔ بایدو خان کا قتل سلطان محمود خان نے فتح حاصل کر کے بایدو خان کو قتل کرا دیا اور خود ماہ ذی الحجہ ۶۹۴ھ میں تخت نشین ہوا۔ سلطان محمود غازان خان ابن ارغون خان ابن ابا قاخان سلطان محمود خان نے تخت نشین ہو کر امیر نوروز بیگ اویرات کو اپنا وزیر و سپہ سالار بنایا۔ اور سکوں پر کلمہ طیبہ نقش کرایا۔ اسی طرح مہر اور فرامین کی پیشانیوں پر اللہ اعلیٰ لکھنے کا حکم دیا۔ نوروز بیگ کو چند روز کے بعد خراسان کا حاکم مقرر کر کے روانہ کیا۔ ایستیمور وارسلان دو مغل سرداروں نے آپس میں عہد کیا۔ کہ ہم میں سے ایک شخص سلطان محمود خان کو اور دوسرا امیر نوروز بیگ کو ایک ہی تاریخ میں قتل کرے۔ چنانچہ ان دونوں نے اپنے ارادے کو قوت سے فعل میں لانے کی کوشش کی۔ مگر عجیب اتفاق یہ ہوا کہ وہ اپنے ارادے میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اور عین وقت پر دونوں سلطان محمود خان اور امیر نوروز بیگ کے ہاتھ سے مارے گئے۔ اس کے بعض امراء وزرا نے امیر نوروز بیگ کے متعلق بدگوئی اور چغل خوری سے کام لے کر باشادہ کو بدگمان بنا دیا۔ اور طاہر کیا کہ امیر نوروز بیگ خراسان میں بغاوت و خود مختاری کے اعلان کا عزم رکھتا ہے ان پہیم سازشی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان محمود غازان خان امیر نوروز بیگ سے بدگمان ہو کر اس کے استیصال کے درپے ہوا۔ اور یہ امیر بزرگ مع خاندان ہلاک و برباد ہوا۔ اسی طرح خواجہ صدرالدین وزیر بھی امراء کی کوشش سے مقتول ہوا اور اس کی جگہ خواجہ رشید الدین مصنف جامع رشیدی کو قلمدان وزارت عطا ہوا۔ یہ واقعہ ۶۹۹ھ کو وقوع پذیر ہوا۔ اس کے بعد سلطان محمود غازان خان نے سلطان مصر کو لکھا کہ میرے بزرگوں نے ملک شام کو فتح کیا تھا۔ اور شام کا ملک ہمارا موروثی مقبوضہ ہے مصری فوجوں نے اس ملک پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ میرے بزرگ چونکہ کافر تھے اور دین اسلام سے واقف نہ تھے۔ لہٰذا تمہاری مخالفت جو میرے بزرگوں سے تم نے کی‘ قابل معافی ہے۔ میں الحمد اللہ مسلمان ہوں اور تم کو مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنا بھائی سمجھتا ہوں۔ لہٰذا اب تمہارا فرض ہے۔ کہ شام کا علاقہ میرے لیے خالی کر دو۔ اور میری بادشاہی اور سرداری کو تسلیم کرو۔ مصر سے اس پیغام کا جواب نامناسب وصول ہوا۔ اسی خط و کتابت