تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جنگ کے ختم ہونے پر یہ فوج منتشر ہو کر اپنے اپنے مسکن کی طرف چلی جائے۔ جو لوگ ایک وقت میں کاشتکاریا چوپان ہوتے تھے۔ دوسرے وقت میں مسلح سپاہی کی حیثیت سے داد شجاعت دیتے ہوئے نظر آتے اور جو سردار ایک وقت میں زمیندار یا جاگیر دار ہوتے تھے۔ دوسرے وقت میں وہی سپہ سالار نظر آتے تھے۔ ایشیائے کوچک میں پہلے ہی سے مسمانوں کی بڑی تعداد آباد تھی اور ان میں ترک خاندانوں کا زیادہ حصہ شامل تھا کیونکہ معتصم باللہ عباسی کے زمانے سے ایشیائے کوچک کے اندر سرحدی شہروں میں ترکوں کے آباد کرنے کا سلسلہ جاری کر دیا گیا تھا۔ سلجوقیوں کے عہد حکومت میں بہت سے قبائل ترکستان سے آ آ کر ایشیائے کوچک میں آباد ہوئے تھے۔ سلاجقہ روم کی حکومت نے بھی بہت سے اپنے ہم وطنوں یعنی ترکوں کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ ترکان غز کی ترک تاز اور مغلوں کے حملوں نے بھی خراسان‘ ایران اور عراق کی طرف سے ترکوں کو اس طرف ریل دیا تھا۔ اس طرح ایشیائے کوچک کا تمام مشرقی حصہ جو اکثر مسلمانوں کے قبضے میں رہا تھا۔ ترک قبائل سے پرتھا صرف شمالی و مغربی ایشیائے کوچک میں عیسائیوں کی کثرت تھی۔ ینگ چری فوج اب جب کہ شمالی و مغربی حصہ بھی عیسائی حکومت سے پاک ہو گیا تو تمام ایشیائے کوچک میں ترکان عثمانی کے ہوا خواہ اور ان کے ہمراہی مذکورہ جاگیر داریوں کے ذریعہ پھیل گئے اور عثمانی ترکوں نے ایسے وقت میں ایشیائے کوچک پر کامل تسلط پایا جب کہ اس ملک میں ان کے لئے بے حد موزونیت اور صلاحیت پیدا ہو چکی تھی۔ لڑائیوں میں بہت سے عیسائی قید ہو کر آئے تھے اور بہت سے عیسائی رعایا بن کر ذمیوں کی حیثیت سے ایشیائے کوچک میں زندگی بسر کرنے لگے تھے۔ وزیراعظم علائو الدین نے بھائی کو سمجھایا کہ بڑے بڑے جاگیر دار جو بڑی بڑی فوج کے مالک ہوتے ہیں سلطنت کے لئے موجب خطر بھی بن جایا کرتے ہیں اور ہماری مملکت کے جاگیر دار عیسائی رعایا۔ عیسائی ہمسایہ سلطنت کی ریشہ دوانیوں کے شکار بن کر ہماری مخالفت پر آمادہ ہو جانے کی استعداد بھی اور زیادہ رکھتے ہیں اس لئے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی قیدیوں اور عیسائی رعایا میں سے نوجوان اور نو عمر لڑکوں کو لے کر سلطنت خود ان کی پرورش اور تربیت کی ذمہ دار بنے اور اس طرح ان کو اسلامی تعلیم دے کر اور مسلمان بنا کر ان کی ایک فوج بنائی جائے یہ فوج خاص شاہی فوج سمجھی جائے۔ ان لوگوں سے بغاوت کی مطلق توقع نہ ہو گی۔ اور ان نو مسلم نو جوانوں کے عزیز و اقارب بھی یقیناً سلطنت کی مخالفت پر ہرگز آمادہ نہ ہوں گے بلکہ ان کو مسلمان ہونے کی بہترین ترغیب ہو سکے گی۔ چنانچہ جب اس پر عملدر آمد شروع ہوا اور کئی ہزار عیسائی لڑکے لے کر ان کی تعلیم شروع کی گئی تو ان لڑکوں کی عزت و عظمت اور شان و شوکت دیکھ کر کیونکہ وہ سلطان عثمانی کے بیٹے سمجھے جاتے تھے۔ عیسائیوں نے خود کوششیں کر کے اپنے نو عمر لڑکوں کو داخل کرنا شروع کر دیا۔ ابتداء جب قریباً دو ہزار نو جوان تعلیم و تربیت پا کر فوجی تعلیم سے فارغ ہو کر سلطان کے باڈی گارڈ قرار دئیے گئے تو سلطان ان کو لے کر ایک بزرگ صوفی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے دغا چاہی اس باخدا بزرگ نے ایک جوان کے شانہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس فوج کے لئے دعائیہ کلمات کہے جو کامیابی کے لئے ایک نیک فال سمجھی گئی۔ یہ سب کے سب نہایت سچے پکے مسلمان اور سب سے زیادہ اسلحہ جنگ سے آراستہ اور شاہی فرزند قرار دئیے گئے