تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لرزیق کی تخت نشینی ساتویں صدی عیسوی کے آخری عشرہ میں اپنی شان و شوکت اور وسعت مملکت کے اعتبار سے گاتھ سلطنت اپنے معراج کمال کو پہنچ چکی تھی‘ تمام بحر روم پر ان کی سیادت مسلم تھی‘ جزیرہ نمائے ہسپانیہ کے علاوہ بحر روم کے اکثر جزائر بھی انہی کے زیر اقتدار اور زیر حکومت تھے‘ افریقہ کے شمالی ساحل پر بھی بعض مقامات پر ان کا قبضہ قائم تھا۔ بحر روم کے مشرقی حصے پر بازنطین یعنی رومی حکومت بڑے شان و شوکت کے ساتھ قائم تھی‘ جس زمانہ میں مسلمانوں نے رومیوں کو ملک شام و فلسطین و مصر سے خارج کر دیا تھا‘ اس زمانے میں گاتھ قوم کا بادشاہ وٹیزا طیطلہ میں برسر حکومت تھا۔ وٹیزا نے جب یہ دیکھا کہ پادریوں نے تمام سلطنت پر اپنا اثر و اقتدار قائم کر کے اللہ کی مخلوق کو ستانے میں بڑی قساوت قلبی کا اظہار کیا ہے اور یہودیوں کے ساتھ ان کا ظالمانہ برتائو انسانیت کے خلاف ہے تو اس نے عیسائیوں یعنی پادریوں کے اقتدار کو توڑنے اور کم کرنے کی کوششیں شروع کیں‘ پادریوں نے اس بات سے واقف ہو کر وٹیزا کے معزول کرنے کی تجویز کی اور اس پر یہ الزام لگایا کہ وہ یہودیوں کا خیرخواہ ہے‘ یہودیوں کی خیرخواہی ایسا ناقابل عفو جرم تھا کہ پادریوں کو وٹیزا کے معزول کرنے میں زیادہ دقت پیش نہ آئی‘ انہوں نے وٹیزا کو معزول کر کے ایک فوجی سردار لرزیق نامی کو جو شاہی خاندان سے نہ تھا تخت نشین کیا‘ اس طرح گاتھوں کی سلطنت کا خاتمہ ہو کر لرزیق کی حکومت آٹھویں صدی عیسوی کے شروع میں شروع ہوئی‘ لرزیق ایک کار آزمودہ سپہ سالار اور ستر اسی سال کی عمر کا تجربہ کار شخص تھا‘ چونکہ پادریوں کی حمایت بھی اس کے شامل حال تھی‘ لہٰذا قدیم شاہی خاندان کے محروم کرنے اور لرزیق کی حکومت کے قائم ہونے میں کوئی دقت اور پریشانی بھی رونما نہ ہوئی۔ لرزیق نے تخت نشین ہو کر اطمینان اور پوری طاقت کے ساتھ حکومت شروع کی اور پادریوں کے اقتدار میں کسی قسم کا فرق نہ آنے پایا۔ اندلس پر مسلمانوں کے حملے کے محرکات افریقہ (مراکو) کے شمالی ساحل پر قلعہ سبطہ یا سوطا ابھی تک عیسائیوں کے قبضہ میں تھا اس قلعہ کا قلعہ دار ایک شخص کونٹ جولین نامی تھا جس کو عربی مورخ بالیان کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ جولین ایک یونانی سردار تھا اور قیصر قسطنطنیہ کی طرف سے مامور تھا‘ قیصر کے تمام مقبوضات افریقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آ چکے تھے‘ صرف یہی ایک قلعہ باقی تھا‘ جو صلح کے ذریعہ جولین کے قبضہ میں چھوڑ دیا گیا تھا جولین نے اندلس کی عیسائی سلطنت سے حسب منشائے قیصر قسطنطنیہ اپنے تعلقات قائم کر لیے تھے کیونکہ قسطنطنیہ کے مقابلے میں اندلس مقام سبطہ سے قریب تھا اور اندلس کی حمایت میں آ جانے سے اس عیسائی مقبوضہ کے قیام و بقا کی زیادہ توقع تھی‘ اس طرح کونٹ جولین حکومت اندلس کے گورنروں میں شمار کیا جاتا تھا اور قلعہ سبطہ حکومت اندلس کی ایک ماتحت ریاست بن گیا تھا جس کا تعلق برائے نام حکومت قسطنطنیہ سے بھی باقی تھی‘ اندلس کے آخری گاتھ فرمان روا مسمی وٹیزانے اپنی بیٹی کی شادی جولین سے کر دی تھی‘ جب وٹیزا تخت سلطنت سے معزول کیا گیا تو جولین کو بالطبع وٹیزا کے معزول اور لرزیق کے تخت نشیں ہونے سے ملال ہوا‘ مگر چونکہ لرزیق کی تخت نشینی پادریوں کے حسب منشا عمل میں آئی تھی‘ لہٰذا جولین کو بھی مجبوراً سرتسلیم