تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلطان مراد خان ثانی سلطان مراد خان ثانی ۸۰۶ھ میں پیدا ہوا تھا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بمقام دارالسلطنت ایڈریا نوپل (اورنہ) باقاعدہ تخت سلطنت پر جلوس کیا اور اراکین سلطنت نے اطاعت و فرمان برداری کی بیعت کی۔ اس نوجوان سلطان کو تخت نشین ہوتے ہی مشکلات و خطرات سے سابقہ پڑا۔ یعنی قسطنطنیہ کے عیسائی بادشاہ نے سلطان محمد خان کے فوت ہونے کی خبر سنتے ہی اپنے قیدی مصطفیٰ کو اپنے سامنے بلا کر اس بات کا اقرار نامہ لکھایا کہ اگر میں سلطنت عثمانیہ کا مالک ہو گیا تو بہت سے مضبوط قلعے اور صوبے۔ (جن کی اقرار نامہ میں تفصیل درج تھی) قیصر قسطنطنیہ کے سپرد کروں گا اور ہمیشہ قیصر کا ہوا خواہ رہوں گا۔ اس کے بعد قیصر قسطنطنیہ نے اپنے جہازوں میں اس کے ساتھ ایک فوج سوار کرا کر سب کو سلطنت عثمانیہ کے یورپی علاقے میں اتار دیا تاکہ وہ سلطان مراد خان کے خلاف ملک پر قبضہ کرے چونکہ یہ مصطفیٰ اپنے آپ کو سلطان محمد خان کا بھائی اور بایزید یلدرم کا بیٹا بتاتا تھا اور اس کے اس دعوے کی تصدیق یا تکذیب میں ترک مترود تھے۔ لہٰذا بہت سے عثمانی سپاہی اس سے آ ملے اور اس کی طاقت بہت بڑھ گئی اس نے شہروں پر شہر فتح کرنے شروع کر دیئے۔ مراد خان نے جو فوج اس کے مقابلہ کو بھیجی اس کا اکثر حصہ مصطفیٰ سے آ ملا اور باقی شکست کھا کر بھاگ آیا۔ اس کے بعد سلطان مراد خان نے اپنے سپہ سالار بایزید پاشا کو ایک معقول جمعیت کے ساتھ اس باغی کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ لیکن معرکہ جنگ میں بایزید پاشا مارا گیا اور مراد کی فوج کو شکست فاش حاصل ہوئی اس فتح و فیروزی کے بعد مصطفیٰ کی ہمت بہت بڑھ گئی اور اس نے یہی مناسب سمجھا کہ میں پہلے تمام ایشیائے کوچک پر قابض ہو جائوں۔ کیونکہ یورپی علاقے میں اس کو توقع تھی کہ قیصر قسطنطنیہ اور مغربی حدود کے عیسائی سلاطین سے مجھ کو مراد خان کے خلاف ضروری امداد ملے گی اور ایشیاء پر قابض ہونے کے بعد یورپی علاقے سے مراد خان کا بے دخل کرنا بہت آسان ہو گا۔ چنانچہ اس نے آ بنائے کو عبور کر کے ایشیائے کوچک میں تاخت و تاراج شروع کر دی۔ مراد خان ثانی نے ان خطرناک حالات کو دیکھ کر تامل کرنا مناسب نہ سمجھ کر بذات خود مصطفیٰ کا تعاقب کرنا ضروری سمجھا اور فوراً ایشیائے کوچک میں پہنچ کر اس کو شکست دینے میں کامیاب ہوا۔ مراد خان کے میدان جنگ میں آتے ہی ترکی سپاہی جن کو اس عرصہ میں مصطفیٰ کے دعوے میں جھوٹ اور افتراکا یقین ہو گیا تھا اس کا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر مراد خان کے پاس آنے لگے۔ مصطفیٰ اپنی حالت نازک دیکھ کر ایشیائے کوچک سے بھاگا اور گیلی پولی میں آ کر تھسلی وغیرہ پر قابض ہو گیا۔ مراد خان بھی اس کے پیچھے گیلی پولی پہنچا۔ یہاں ایک معرکہ میں اس کو شکست فاش دے کر اس کی طاقت کا خاتمہ کر دیا۔ مصطفیٰ یہاں سے ایڈریا نوپل کی طرف بھاگا۔ تاکہ دارالسلطنت پر قابض ہو جائے مگر ایڈریا نوپل میں وہ گرفتار کر لیا گیا۔ اور شہر کے ایک برج میں پھانسی پر لٹکا کر اس کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد سلطان مراد خان نے جنیوا کی ریاست سے جو قیصر قسطنطنیہ سے رقابت رکھتی تھی۔ دوستی کا عہد نامہ کیا اور قسطنطنیہ پر اس لیے چڑھائی کی تیاریاں کیں کہ قیصر قسطنطنیہ نے ہی مصطفیٰ باغی سے یہ فتنہ برپا کرایا تھا۔ قیصر پلیولوگس والی قسطنطنیہ نے جب یہ سنا کہ سلطان مراد خان ثانی قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہا ہے تو اس کو بہت فکر پیدا ہوئی۔ اور اس نے اس فوری مصیبت کو ملتوی کرنے کے لیے