تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
منذر اور وزیر ہاشم کو فوج دے کر بھیجا اور عمر بن حفصون کو اپنی حکومت و ریاست قائم کر لینے کے لیے نہایت قیمتی صورت مل گئی۔ وہاں اشبیلیہ کے نواح میں دو سال تک جنگ و پیکار کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر ۲۷۲ھ میں عبدالرحمن بن مروان کو تھوڑا سا علاقہ اور دے کر صلح کر لی گئی اور اس طرف کی ہنگامہ آرائی ختم ہوئی۔ اس کے بعد شہزادہ منذر کو عمر بن حفصون کی طرف بھیجا گیا۔ عمر بن حفصون جب سے سپہ سالاری چھوڑ کر آیا تھا۔ پہلے کی نسبت زیادہ شائستہ اور مآل اندیش بن گیا تھا۔ اس نے دربار قرطبہ اور وزیر ہاشم کی صحبت سے بہت فائدہ اٹھایا اور اس مرتبہ آ کر بجائے ایک ڈاکو اور رہزن کے وہ ایک فرماں روا اور والی ملک کی حیثیت میں نمودار ہوا اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جس قدر حصہ ملک پر اس کا قبضہ تھا اس میں چوری اور ڈاکہ زنی کا بالکل انسداد کر دیا‘ وہ رہزنوں‘ چورں اور ظالموں کو نہایت عبرتناک سزائیں دیتا اور بالخصوص اپنے سپاہیوں اور فوجی سرداروں کو تو قطعاً رعایا پر ظلم نہ کرنے دیتا اور اس کا اثر اس کی حکومت و طاقت کے بڑھانے کا موجب ہوا اور یہی وہ گروہ تھا جو عمر بن حفصون دربار قرطبہ سے یاد کر کے آیا تھا۔ آج کل رعب سلطنت باقی نہ رہنے سے ملک میں ہر طرف بدامنی کا دور دورہ تھا اور ایسی حالت میں رعایا کے جان و مال کا محفوظ نہ ہونا یقینی بات تھی لیکن بخلاف اس کے عمر بن حفصون نے اپنے چھوٹے سے مقبوضے میں جس پر وہ غاصبانہ اور باغیانہ طور پر قابض و متصرف تھا قابل رشک امن و امان قائم کر رکھا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کی آبادی کو اس کے ساتھ محبت اور ارد گرد کے علاقوں کو بھی اس سے ہمدردی پیدا ہو گئی۔ سلطان محمد کی وفات ۲۷۲ھ کے آخر اور ۲۷۳ھ کے شروع میں منذر بن محمد ولی عہد سلطنت فوج لے کر عمر بن حفصون کے مقابلہ کو آیا ابتداء چند چھوٹی چھوٹی معرکہ آرائیاں ہوئیں۔ اس کے بعد بہت زیادہ ممکن تھا کہ عمر بن حفصون کو مغلوب یا مقتول یا گرفتار کر لیا جائے۔ عمر بن حفصون زخمی ہو چکا تھا اس کو اور اس کی فوج کو منذر بن محمد نے محصور کر کے اس قدر مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو منذر کے سپرد کر دینے والا تھا کہ اسی اثنا میں منذر کے پاس سلطان محمد کے فوت ہونے کی خبر پہنچی منذر اس خبر کو سنتے ہی بلاتوقف قرطبہ کی جانب روانہ ہو گیا اور عمر بن حفصون اس طرح مع اپنی جماعت کے برباد ہونے سے بچ گیا۔ سلطان محمد ۲۰۷ھ میں پیدا ہوا تھا قریباً ۴۴ سال کی عمر پا کر ماہ صفر ۲۷۳ھ میں ۳۴ سال چند ماہ حکومت کرنے کے بعد فوت ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا منذر تخت نشین ہوا۔ سلطان محمد کے عہد حکومت پر تبصرہ سلطان محمد کے عہد حکومت میں اندلس پر بدامنی طاری رہی۔ اس کو ایک روز بھی مطمئن ہو کر بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ اندرونی بغاوتوں اور بیرونی سازشوں کے ختم نہ ہونے والے سلسلے نے سلطان محمد کو ہمیشہ مصروف و پریشان رکھا۔ سلطان محمد کے زمانے میں خاندان بنو امیہ کی حکومت بہت ہی کمزور اور بے وقار ہو گئی تھی معمولی اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں کو بھی بغاوت و سرکشی کی جرأت ہو گئی تھی۔ سلطنت اموی کے اس ضعف و اختلال نے عیسائیوں کو بہت فائدہ پہنچایا انھوں نے اپنے آپ کو خوب طاقتور بنا کر اس بات کو ممکن سمجھا کہ ہم اندلس میں پھر عیسائی حکومت قائم کر سکیں گے۔