تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں بعض عرب سرداروں کی جاگیریں تھیں اور وہیں اقامت گزیں تھے۔ ان لوگوں میں سے بعض نے یہ رنگ دیکھ کر علم بغاوت بلند کیا اور اشبیلیہ پر قابض و متصرف ہو گئے۔ ادھر اسی قسم کے جاگیر دار عربوں نے غرناطہ کے نواح میں علم بغاوت بلند کر کے غرناطہ پر قبضہ کر لیا‘ یوں سمجھنا چاہیئے کہ ابن حفصون اور ابن مروان کے مد مقابل دو اور طاقتیں پیدا ہو گئیں اور ان چاروں طاقتوں میں جنگ و پیکار کا سلسلہ جاری ہوا۔ دربار قرطبہ میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ ان سب کو زیر کرتا بلکہ اب سلطان عبداللہ کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ وہ صرف نواح قرطبہ پر حکومت رکھتا اور ان لڑنے والی چاروں طاقتوں کے درمیان کبھی کبھی دخل دے کر ان کی لڑائی کو صلح سے تبدیل کرا دیتا تھا۔ چونکہ چاروں رقیب ایک دوسرے کے مد مقابل تھے اس لیے ان میں سے ہر ایک دربار قرطبہ کی سیادت کو تسلیم کرتا اور سلطان قرطبہ کو اپنا بادشاہ کہتا۔ لیکن عملی طور پر وہ بالکل خود مختار تھے اور کسی قسم کا باج و خراج سلطان عبداللہ کے پاس نہیں بھیجتے تھے۔ مذکورہ عرب سرداروں کا طرز عمل مولدین اور نو مسلموں کے ساتھ اچھا نہ تھا۔ اس لیے مولدین اور نو مسلموں کا ایک بڑا گروہ ابن مروان کے پاس چلا گیا تھا۔ انہی ایّام میں شمالی شہروں کے دو مسلمان عالموں نے سرقسطہ و شنت بریہ کے نواح میں عیسائیوں کے اس منصوبہ کو کہ اندلس کو مسلمانوں سے خالی کرا لیا جائے۔ سخت صدمہ پہنچایا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب بادشاہ السیٹریاس اپنی فوجیں لے کر جنوب کی طرف بڑھا ہے تو مقام طرسونہ کے عامل لب بن محمد نے اپنی نہایت قلیل جمعیت سے عیسائیوں کو شکست فاش دے کر بھگا دیا۔ ادھر عبدالرحمن بن مروان نے اپنے دوست شاہ السیٹریاس کو اطلاع دی کہ اگر اپنی حدود سلطنت سے آگے قدم بڑھایا تو میں سب سے پہلے مقابلہ کے لیے تیار ہوں۔ اس تنبیہ و تہدید کا یہ اثر ہوا کہ عیسائیوں نے چند روز کے لیے اور خاموش رہنا مناسب سمجھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہماری حملہ آوری سے مسلمانوں کی خانہ جنگی موقوف ہو کر ان میں اتفاق پیدا ہو جائے گا اور آپس میں چھری کٹاری رہ کر ان کے کمزور ہونے کا سلسلہ رک جائے گا۔ ادھر ابن حفصون نے یہ ہوشیاری کی کہ افریقہ کے خاندان اغالبہ سے خط و کتابت کر کے اس بات کی استدعا کی کہ عباسی خلیفہ سے میرے نام کی سند حکومت اندلس منگا دی جائے۔ اس کوشش میں اگرچہ عمر بن حفصون کو کامیابی نہ ہوئی مگر اس خبر کے سننے سے دربار قرطبہ میں ہلچل پیدا ہو گئی اور سلطان عبداللہ نے جس قدر فوج وہ فراہم کر سکتا تھا فراہم کر کے ابن حفصون پر فوراً چڑھائی کر دی۔ سلطان عبداللہ اس بات سے واقف تھا کہ اگر عمر بن حفصون کے پاس خلیفہ عباسی کی سند آ گئی تو عام طور پر لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جائیں گے اور پھر اندلس میں بنو امیہ کا وجود باقی نہ رکھا جائے گا۔ سلطان عبداللہ چودہ ہزار سے زیادہ فوج جمع نہ کر سکا۔ ابن حفصون کے پاس تیس ہزار فوج تھی۔ آخر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا۔ اس معرکہ میں عبداللہ اور اس کے ہمراہیوں نے غیر معمولی بہادری کا اظہار کیا اور ابن حفصون کو شکست فاش دے کر پہاڑوں میں بھگا دیا۔ باغی فوج کے بہت سے آدمی مارے گئے اور سلطان عبداللہ کی حدود ملکیت کسی قدر وسیع ہو گئی۔ اس فتح کا اثر حکومت قرطبہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوا۔ سلطنت کا اعتبار و اعتماد جو بالکل ضائع ہو چکا تھا اب کسی قدر پھر قائم ہونے لگا۔ عبداللہ کی عملی جدوجہد ادھر عبداللہ بن مروان نے انہی ایّام میں اشبیلیہ کے خود مختار رئیس ابراہیم بن حجاج