تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
داخل ہو کر اپنے گھوڑے کو روما کے بڑے گرجا میں دانہ کھلائے‘ اس مرتبہ سلطان فاتح نے بڑی سرگرمی کے ساتھ فوجی تیاری کی اور آبنائے باسفورس پر سمندر کے کنارے فوجی علم نصب کرا دیئے‘ جو اس بات کی علامت تھی کہ سلطان اپنی جرار فوج کے ساتھ بہت جلد روانہ ہونے والا ہے۔ اس وقت سلطان کے سامنے تین مہمیں موجود تھیں‘ ایک ایران کے باشادہ حسن طویل کو سزا دینا‘ کیوں کہ اس نے شہزادہ بایزید کے مقابلہ میں چھیڑ چھاڑ اور لڑائی شروع کر دی تھی‘ دوسرے جزیرہ روڈس کو فتح کرنا‘ تیسرے ملک اٹلی کو تمام و کمال فتح کر کے شہر روما میں فاتحانہ داخل ہونا‘ سلطان نے کسی دوسرے شخص کو یہ نہیں بتایا کہ وہ اول کس طرف متوجہ ہو گا سلطان فاتح کی یہ عادت تھی کہ وہ جب کسی مہم پر خود روانہ ہوتا تھا تو فوج کے کسی افسر حتیٰ کہ اس کے وزیر اعظم تک کو بھی یہ معلوم نہ ہوتا تھا‘ کہ سلطان کا ارادہ کس طرف کا ہے۔ ایک مرتبہ کسی سپہ سالار نے سلطان سے پوچھا تھا کہ آپ کا ارادہ کس طرف کا ہے اور آپ کا مقصد کیا ہے‘ تو سلطان نے اس کو جواب دیا تھا کہ اگر مجھ کو یہ معلوم ہو جائے‘ کہ میری داڑھی کے ایک بال کو میرے ارادے کی اطلاع ہو گئی ہے تو میں داڑھی کے اس بال کو نوچ کر فوراً آگ میں ڈال دوں۔۱؎ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ سلطان کو جنگی معاملات میں کس قدر احتیاط ملحوظ تھی‘ بہر حال قسطنطنیہ میں ہر طرف سے فوجیں آ آ کر جمع ہو رہی تھیں اور سلطان فاتح سامان جنگ اور ضروریات لشکر کی فراہمی میں مصروف تھا‘ یہ تیاری بہت ہی عظیم الشان اور غیر معمولی تھی‘ جس سے ظاہر ہوتا تھا‘ کہ بہت جلد برا عظم یورپ اور برا عظم ایشیا میں عظیم الشان فتوحات سلطنت عثماینہ کو حاصل ہونے والی ہیں‘ ان تیاریوں کا کام ۸۸۶ھ میں شروع ہو گیا‘ اور لشکر کے کوچ کرنے کا وقت قریب آ گیا‘ سلطان فاتح نے قسطنطنیہ سے کوچ کیا اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اول شاہ ایران کو سزا دے کر بہت جلد وہاں سے واپس ہو کر روڈس کو فتح کرے گا اور روڈس سے فارغ ہو کر ملک اٹلی میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ داخل ہو گا‘ جہاں شہر اور ٹرانٹو پر اس کا بہادر سپہ سالار احمد قیدوق قابض و متصرف اور اپنے سلطان کی تشریف آوری کا منتظر تھا اور پوپ سکٹس چہارم روما میں منتظر تھا کہ سلطان کے حدود اٹلی میں داخل ہونے کی خبر سنتے ہی وہ روما سے فرار ہو جائے‘ مگر قضا و قد کے سامنے کسی کا بس نہیں چل سکتا۔ سلطان محمد خان ثانی کی وفات اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ یورپی ممالک سے عیسائیوں کا نام و نشان گم ہو‘ لہٰذا قسطنطنیہ سے روانہ ہوتے ہی سلطان پر درد نقرس کا حملہ ہوا اور اسی مرض میں بروز پنجشنبہ بتاریخ ۳ ربیع الاول ۸۸۶ھ مطابق ۳ مئی ۱۴۸۱ء میں سلطان فاتح نے وفات پائی اور یہ عظیم الشان فوج کشی ملتوی رہ گئی۔ سلطان کی لاش کو قسطنطنیہ میں لا کر دفن کیا گیا‘ یوم الخمیس یوم وفات ہے ۵۲ یا ۵۳ سال کی عمر پائی اور قریباً ۳۱ سال حکمرانی کی‘ سلطان فاتح کی وفات سلطنت عثمانیہ کے لیے بے حد مضر ثابت ہوئی‘ ۱؎ اسلام میں داڑھی کا ایک خاص مقام ہے۔ جناب رسول اللہe نے مسلمانوں کو داڑھی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے اگر یہ واقعہ درست ہے تو سلطان محمد خاں ثانی کی یہ بات داڑھی کے بارے میں ایک گستاخانہ کلمہ اور داڑھی کی تحقیر ہے۔