تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اندلس میں بہت سی خود مختار اسلامی سلطنتیں الگ الگ قائم ہو گئی تھیں اور آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت پر آمادہ تھیں۔ اس زمانے میں عیسائی بادشاہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اور اپنی حدود کو وسیع کر کے اسلامی حکومت کے رقبہ کو کم کر دیا۔ اس کے بعد مرابطین کی سلطنت اسلامی اندلس پر قابض و متصرف ہو گئی۔ یعنی الگ الگ چھوٹی چھوٹی مسلمان بادشاہتوں کا علاقہ مل کر ایک اسلامی سلطنت کے ماتحت ہو گیا۔ مگر جس قدر ملک اس گذشتہ طوائف الملوکی میں عیسائیوں کے قبضے میں پہنچ گیا تھا۔ وہ عموماً واپس نہ ہوا۔ مرابطین کی سلطنت جب برباد ہوئی۔ اور اس کی جگہ موحدین کی حکومت قائم ہوئی تو اس تبدیلی میں بھی عیسائیوں نے ایک قلیل حصہ اندلس کا اور دبا لیا اور عیسائی مقبوضات اندلس میں زیادہ وسیع ہو گئے۔ اب موحدین کی سلطنت میں ضعف و انحطاط کے آثار ایسے وقت نمودار ہوئے۔ جب کہ تمام یورپ مسلمانوں کی بیخ کنی پر آمادہ اور عیسائی لوگ مسلم کشی کے لیے دیوانے ہو رہے تھے۔ جنگ العقاب نے نہ صرف موحدین کی سلطنت کو پیغام مرگ پہنچایا۔ بلکہ عیسائیوں کے مقبوضات کو اندلس میں وسیع سے وسیع تر بنا دیا۔ اسی زمانے میں اندلس سے مسلمانوں کا نام و نشان پورے طور پر مٹایا جا سکتا تھا۔ مگر عیسائی مجاہدین کی بدعنوانیوں اور نالائقیوں نے اندلسی عیسائیوں کو ان سے متنفر کر دیا۔ اس طرح اندلسی عیسائیوں نے مسلمانوں کے استیصال کا کام کسی دوسرے وقت کے لیے ملتوی کر دیا۔ موحدین کی سلطنت جب اندلس سے مٹی ہے تو اندلس کا نصف سے زیادہ شمالی حصہ اور قریباً تمام مغربی صوبے عیسائیوں کے قبضہ و تصرف میں پہنچ چکے تھے۔ ملسمان ہٹتے اور سمٹتے ہوئے جنوب و مشرق کی طرف آ گئے تھے۔ موحدین کی حکومت کے بعد بھی اسی قسم کی طوائف الملوکی اندلس میں نمودار ہوئی۔ جیسی کہ بنو امیہ کی حکومت کے بعد نمودار ہوئی تھی۔ مگر فرق یہ تھا۔ کہ پہلی طوائف الملوکی میں مسلمانوں کا ملک زیادہ وسیع اور ہر ایک رئیس کے قبضے میں بڑے بڑے صوبے تھے۔ اس طوائف الملوکی میں اسلامی اندلس کا رقبہ بہت مختصر و محدود رہ گیا تھا۔ اور اسی لیے ہر ایک رئیس کے قبضے میں بہت چھوٹے چھوٹے علاقے تھے۔ جس طرح پہلی طوائف الملوکی میں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا تھا۔ اسی طرح اس مرتبہ بھی ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ بلکہ اس مرتبہ یہ اور مصیبت رہی کہ ہر ایک مسلمان رئیس دوسرے مسلمان رئیس کو برباد و تباہ کرانے کے لیے عموماً عیسائی بادشاہ کو چڑھا کر لاتا اور اس برادر کشی کے کام سے فارغ ہو کر اپنی مملکت کے بعض شہرو قلعے عیسائی بادشاہ کی نذر کر دیتا۔ عیسائی بہت خوش ہوتے اور مسلمانوں کی اس نالائقی کو اطمینان کی نظر سے دیکھتے تھے کہ ہمارا مقصود خود بخود حاصل ہو رہا ہے۔ ریاست بنو ہود محمد بن یوسف ۵۰۳ھ میں احمد مستعین بن ابو عامر یوسف موتمن بن ابو جعفر بن ہود عیسائیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے سرقسطہ کے سامنے شہید ہوا تھا۔ یہ شاہان سرقسطہ میں چوتھا بادشاہ تھا اس کی اولاد میں محمد بن یوسف ایک شخص تھا۔ جو موحدین کی حکومت کے آخری ایّام میں اندلس کے اندر رئیسانہ زندگی بسر کرتا تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ شیرازہ سلطنت ڈھیلا ہو گیا ہے تو وہ قزاقوں کے ایک گروہ میں شامل ہو کر ان کا سردار بن گیا۔ اور رفتہ رفتہ اپنی جمعیت کو بڑھا کر مرسیہ کے عامل ابو العباس کو شکست دے کر مرسیہ پر قابض ہو گیا۔ اور بہت جلد غرناطہ۔ مالقہ۔ المیریہ وغیرہ پر قابض ہو کر ۶۲۵ھ میں موحدین کے