تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مستنصر کی بہن نے محمد ملک کی خواہش کے موافق اراکین سلطنت کے سامنے اس بات کی گواہی دی کہ مستنصر نے اپنے بعد ابوالقاسم کے تخت نشین ہونے کی وصیت کی ہے۔ چنانچہ لوگوں نے ابوالقاسم کے ہاتھ پر حکومت کی بیعت کی۔ اور ’’مستعلی باللہ‘‘ کے لقب سے اس کو تخت پر بٹھایا۔ ابوالقاسم مستعلی عبیدی مستعلی کے تخت نشین ہونے سے تین روز بعد نزار قاہرہ سے روانہ ہو کر اسکندریہ چلا گیا۔ اسکندریہ میں بدر جمالی کا غلام نصیرالدولہ افتگین وہاں کا عامل و حکمراں تھا۔ وہ یہ سن کر کہ ابوالقاسم تخت نشین ہوا ہے۔ باغی ہو گیا۔ اور نزار کو مستحق حکومت سمجھ کر اس کا موید بن گیا۔ نصیرالدولہ نے اسکندریہ میں نزار کو تخت نشین کر کے اس کی بیعت کی اور ’’مصطفیٰ لدین اللہ کو اس کا لقب مقرر کیا۔ یہ خبر قاہرہ میں پہنچی تو وزیرالسلطنت محمد ملک فوج لے کر نزار کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوا۔ اور جا کر اسکندریہ کا محاصرہ کر لیا۔ شدت محاصرہ سے تنگ آ کر محصورین نے امن کی درخواست کی اور سکندریہ محمد ملک کے سپرد کر دیا۔ وزیرالسلطنت محمد ملک نے نزار کو گرفتار کر کے قاہرہ بھیج دیا۔ مستعلی نے نزار کو بلا توقف قتل کرا دیا۔ اس کے بعد وزیرالسلطنت اپنے ہمراہ نصیرالدولہ افتگین کو لئے ہوئے قاہرہ پہنچا۔ مستعلی نے افتگین کو بھی قتل کرا دیا۔ اس کے بعد کسیلہ نامی ایک شخص جو شہر صور کا والی تھا باغی ہو گیا۔ اس کی سرکوبی کے لئے فوج روانہ ہوئی۔ بڑی خوں ریزی کے بعد کسیلہ گرفتار ہو کر قاہرہ آیا اور مستعلی کے حکم سے مقتول ہوا۔ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ شام کا تمام ملک تاج الدولہ تتش سلجوقی کے قبضے میں آ چکا تھا تاج الدولہ تتش کی وفات کے بعد تتش کے دونوں لڑکوں دقاق اور رضوان میں خانہ جنگی برپا ہو گئی تھی۔ دقاق دمشق پر قابض تھا۔ اور رضوان نے حلب پر قبضہ کر لیا تھا۔ بیت المقدس کی حکومت پر دقاق فی لافی کی طرف سے سلیمان بن ارتق کو مامور کر رکھا تھا۔ ۴۹۰ھ یورپ کے عیسائیوں نے جن میں بڑے بڑے بادشاہ بھی شامل تھے۔ متحد ہو کر بیت المقدس کو مسلمانوں کے قبضے سے نکالنے کے لئے حملہ کیا۔ ان صلیبی حملہ آوروں نے آتے ہی انطاکیہ کا محاصرہ کیا۔ انطاکیہ میں ان دنوں ایک سلجوقی باغیسان نامی مامور تھا۔ وہ عیسائیوں کا مقابلہ نہ کر سکا۔ اور انطاکیہ کو چھوڑ کر فرار ہوا۔ راستے میں کسی ارمنی نے اس کو مار ڈالا۔ اور سر اتار کر صلیبی لشکر میں لے آیا۔ انطاکیہ کے اس طرح نکل جانے اور باغیسان کے مارے جانے سے ملک شام میں ہل چل مچ گئی۔ کربوقا نامی سلجوقی سردار جو موصل کا والی تھا۔ عیسائی حملہ آوروں کی طرف بڑھا۔ اور مرج وابق میں پہنچ کر پڑائو کیا۔ یہ سن کر دقاق بن تتش‘ سلیمان بن راتق‘ طفتگین والی حمص بھی اپنی اپنی فوجیں لے کر بوقا کے پاس پہنچ گئے۔ اور سب مل کر انطاکیہ کی طرف عیسائیوں کے مقابلہ کو بڑھے۔ عیسائی لشکر کے مقابلہ میں ان مسلمان سرداروں کی متحدہ فوج بے حقیقت اور نہایت قلیل تھی۔ سخت معرکہ آرائی کے بعد مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ ہزار ہا مسلمان شہید ہوئے۔ عیسائیوں نے ان کے لشکر گاہ کو لوٹ لیا۔ اس کے بعد عیسائیوں نے حمص پر قبضہ کیا۔ پھر عکہ کا محاصرہ کر لیا۔ عکہ کی ترکی سلجوقی فوج نے بڑی بڑی سختیاں برداشت کیں۔ اور مدافعت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ابھی عیسائیوں نے عکہ کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ اور شام کے تمام مسلمانوں کی توجہ اس