تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیدنا امام مالک a کے یہ کلمات عباسیوں کو سخت ناگوار گذرتے تھے‘ اور اسی لیے عباسیوں کے ہاتھوں سے انہوں نے اذیتیں برداشت کیں‘ ہشام کے ابتدائی عہد حکومت میں فرعون بن عباس‘ عیسیٰ بن دینار‘ اور سعید بن ابی ہند جو ملک اندلس کے مشہور فقہاء اور علماء میں سے تھے‘ حج کے ارادے سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے ان کے ساتھ اور بھی علماء اور اکابر تھے‘ ان لوگوں کی جب سیدنا مالک بن انس سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت متاثر ہوئے چند روز ان کی صحبت سے مستفیض ہو کر اندلس واپس گئے‘ اور سیدنا امام مالک کے خیالات و عقائد کی اشاعت کرنے لگے‘ ان کی تبلیغ کا یہ اثر ہوا کہ اندلس کے قاضی القضاۃ ابوعبداللہ زید نے بھی مالکی مسلک کو پسند کر لیا‘ سلطان ہشام ان لوگوں کی سب سے زیادہ قدر و منزلت کرتا اور ان ہی لوگوں کو زیادہ اپنی صحبت میں رکھتا تھا۔ لہٰذا سلطان نے بھی ۱؎ ابن جبیر اندلسی (المتوفی ۶۱۴ھ) نے اپنے سفرنامہ میں اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کیا ہے‘ جس میں انہوں نے بیت اللہ شریف میں حنبلی‘ شافعی‘ حنفی اور مالکی چار مصلوں کے قائم ہونے اور مسجد حرام‘ مکہ میں ایک ہی وقت میں ان چاروں مسالک کی الگ الگ نماز پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ یعنی اس وقت فرقہ بندی کا اتنا زور تھا کہ بیت اللہ شریف میں چاروں مسالک کے پیروکار اپنی الگ الگ نماز پڑھتے تھے۔ (بحوالہ دعوت تحقیق‘ صفحہ ۸ش سید وقار علی شاہ) سیدنا امام مالک کے مذہب کو قبول کر کے حکم دیا کہ ہر سال سرکاری خزانہ سے ان لوگوں کے مصارف برداشت کئے جائیں جو سیدنا امام مالک کی خدمت میں فقہ اور حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جائیں۔ چنانچہ نو مسلم عیسائیوں اور نومسلموں کی اولاد نے اس طرف زیادہ توجہ کی اور حقیقت یہ ہے کہ ان نومسلموں میں دینی احکام کی پابندی اور عبادات کا زیادہ شوق تھا‘ سلطان ہشام اور شیخ الاسلام ابوعبداللہ کے مالکی مسلک اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت کا مذہب مالکی ہو گیا اور تمام ملک میں مالکی فقہ کے موافق قاضیوں کے فیصلے صادر ہونے لگے۱؎ ہشام کے عہد حکومت میں صدقات و زکٰوۃ‘ کتاب و سنت کے بالکل موافق وصول کئے جاتے تھے۔ ولی عہدی سلطان ہشام نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے حکم کو اپنا ولی عہد بنایا‘ اور اراکین سلطنت سے حکم کی ولی عہدی کی بیعت لی اس موقعہ پر حکم کو مخاطب کر کے سلطان ہشام نے مندرجہ ذیل کلمات بطور وصیت فرمائے۔ ’’ تم عدل و انصاف کے قائم رکھنے میں امیر و غریب کا مطلق امتیاز نہ کرنا اپنے ماتحتوں سے مہربانی اور رعایت کا برتائو کرنا‘ اپنے صوبوں اور شہروں کی حفاظت و حکومت پر وفادار اور تجربہ کار لوگوں کو مامور کرنا‘ جو عامل رعایا کو بلاوجہ ستائے اس کو سخت سزا دینا‘ فوج پر اپنا اقتدار مضبوطی اور اعتدال کے ساتھ قائم رکھنا‘ اور اس بات کا بھی لحاظ رکھنا کہ فوج کا کام ملک کی حفاظت کرنا ہے‘ ملک کو تباہ کرنا نہیں‘ فوج کو تنخواہ ہمیشہ وقت پر دینا اور جو وعدہ کرو اس کو ضرور پورا کرنا‘ ہمیشہ اس بات کی کوشش کرنا کہ رعایا تم کو محبت کی نگاہ سے دیکھے‘ رعایا کو زیادہ ڈرانا اور خوف زدہ بنا کر رکھنا استحکام سلطنت کے لیے مضر ہے۔ اسی طرح رعایا کا بادشاہ سے متنفر ہونا نقصان رساں ہے‘ کاشت کاروں کے حال سے کبھی بے خبر نہ ہونا‘ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا‘ کہ فصلیں تباہ اور خراب نہ ہونے پائیں اور چراگاہیں برباد نہ ہو جائیں‘ تمہارا مجموعی طرز عمل ایسا ہو کہ تمہاری رعایا تم کو دعائیں دے اور تمہارے زیر سایہ