تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طوطہ کے پاس ریاست نوار میں چلا گیا ریاست نوار میں شانجہ کا ایک ماموں بادشاہ تھا مگر عنان حکومت ان کی نانی ہی کے ہاتھ میں تھی۔ جو قابلیت و تجربہ کاری کی وجہ سے اپنے بیٹے شاہ نوار کی سرپرست و اتالیق بھی تھی ملکہ طوطہ نے خلیفہ کی خدمت میں بہت سے تحفے اور ہدئیے بھیج کر درخواست کی کہ خلیفہ شانجہ کا ملک اردونی سے واپس دلا دے اور ایک طبیب قرطبہ سے بھیج دے جو شانجہ کے مرض کا علاج کرے۔ خلیفہ نے ایک شاہی طبیب کو نوار کی فوراً روانہ کر دیا۔ اور ملک کے واپس دلانے کا مسئلہ غور و تامل کے لیے دوسرے وقت پر ٹال دیا۔ طبیب کے علاج سے شانجہ کو آرام ہو گیا اور اس کی پہلی چستی و چالا کی پھر واپس آ گئی۔ دربار خلافت میں تین عیسائی بادشاہ بہ حیثیت فریادی اس کے بعد ۴۴۷ھ میں ملکہ طوطہ نے یہی مناسب سمجھا کہ میں خود خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض معروض کروں۔ چنانچہ وہ اپنے بیٹے شاہ نوار اور اپنے نواسے شاہ لیون کو لے کر قرطبہ کی جانب روانہ ہوئی۔ گویا تین عیسائی بادشاہ حدود فرانس سے خلیفہ کے دربار میں حاضر ہونے کے لیے روانہ ہوئے یہ ایک نہایت جاذب توجہ نظارہ تھا۔ راستے کے جن جن شہروں یا قصبوں میں یہ لوگ قیام کرتے تھے لوگ ان کے دیکھنے کو جمع ہو جاتے تھے۔ کہ کئی بادشاہ فریادی بن کر دربار قرطبہ کی طرف جا رہے ہیں۔ قرطبہ کے قریب پہنچے تو ان کا نہایت شاندار استقبال کیا گیا۔ دربار میں خلیفہ کے سامنے حاضر ہوئے تو دربار کی شان اور خلیفہ کے رعب و جلال نے ان کو مبہوت اور سربسجود کر دیا خلیفہ نے ان کی دل دہی اور تشفی کی اور ان لوگوں کے اتنی دور چل کر آنے اور فریاد کرنے کا اثر ہوا کہ خلیفہ نے ان کے ساتھ اپنے فوجی دستوں کو روانہ کیا کہ ریاست لیون و جلیقیہ کی حکومت شانجہ کو دلا دیں۔ چنانچہ امیرالمومنین عبدالرحمن ثالث کی فوجوں نے اردونی چہارم کو بے دخل کر کے شانجہ کو جلیقیہ و لیون کا بادشاہ بنا دیا۔ اور اردونی بھاگ کر قسطلہ میں فردی نند کے پاس چلا گیا۔ اور سلطانی فوجوں نے اس سے زیادہ تعرض نہیں کیا۔ اردونی کے انجام کو دیکھ کر شاہ برشلونہ اور رئیس طرکونہ نے اپنے سفیر دربار قرطبہ میں بھیج کر التجا کی کہ ہم دربار خلافت کے غلام ہیں۔ اور اپنی اپنی ریاست کو عطیہ سلطانی سمجھتے ہیں۔ اطاعت و فرماں برداری کے شرائط بجا لانے میں مطلق انکار و تامل نہیں ہے۔ لہٰذا ہم کو ہماری ریاستوں کی سندیں پھر عطا ہوں اور ہمارے اظہار اطاعت کی تجدید کو شرف قبولیت عطا فرمایا جائے۔ خلیفہ ناصر نے ان عیسائی بادشاہوں کے نام اپنی رضا مندی و خوشنودی کے احکام روانہ کر کے ان کو مطمئن کیا۔ اہل علم و فن کی قدر افزائی خلیفہ عبدالرحمن ثالث نے جہاں کہیں کسی علم و فن کے با کمال کا نام سنا اس کو بلوایا اور بڑی قدر دانی کے ساتھ پیش آیا اس قدردانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغداد‘ قسطنطنیہ‘ قاہرہ‘ قیروان‘ دمشق‘ مدینہ‘ مکہ‘ یمن‘ ایران اور خراسان تک سے با کمال لوگ کھنچ کھنچ کر قرطبہ میں جمع ہو گئے۔ ان با کمالوں میں ہر علم و فن اور ہر ملت و مذہب کے لوگ شامل تھے۔ اور دربار خلافت سے سب کی عزت افزائی اور تربیت و پرورش ہوتی تھی۔ تعمیری ذوق خلیفہ عبدالرحمن کو سلاطین اندلس میں وہی مرتبہ حاصل تھا جو ہندوستان کے شاہان مغلیہ میں شاہجہان کو۔ مسجد قرطبہ کی تعمیر کا کام عبدالرحمن اول کے زمانہ میں شروع