تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے زمانے سے قائم تھی شہزادہ محمد تخت نشین ہوا اور عبداللہ مع اپنی والدہ طروب کے ناکام رہا۔ عبدالرحمن بن معاویہ یعنی عبدالرحمن اول یا عبدالرحمن الداخل کے زمانے میں محاصل ملکی کی تعداد تین لاکھ دینار تھی۔ سلطان حکم کے زمانے میں یہ تعداد چھ لاکھ تک پہنچ گئی تھی عبدالرحمن ثانی کے زمانے میں محاصل ملکی جو خزانہ شاہی میں داخل ہوتے تھے۔ دس لاکھ دینار سالانہ تھے۔ کل آمدنی کے تین حصے کئے جاتے تھے۔ ایک حصہ فوج کی تنخواہوں میں۔ ایک حصہ حکام اور عہدہ داران سلطنت کی تنخواہوں میں صرف ہوتا تھا۔ ایک حصہ خزانہ عامرہ میں غیر مترقبہ ضرورتوں کے لیے محفوظ رکھا جاتا تھا۔ اسی میں سے رفاہ رعایا کے کام اور تعمیرات کے مصارف پورے کئے جاتے تھے۔ عبدالرحمن ثانی نے بعض تجارتی سامان اور دوسری چیزوں پر محصول لگا کر آمدنی کو بڑھایا تھا۔ اس لیے اس کے خلاف ملک میں مخالفت کا جذبہ بآسانی پیدا کیا جا سکا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عبدالرحمن کی اولاد سینکڑوں تک پہنچ گئی تھی۔ یعنی سو سے زیادہ بیٹے اور پچاس کے قریب بیٹیاں تھیں۔ عبدالرحمن بہت قیافہ شناس شخص تھا۔ اس کو اس کی رعایا نے المظفر کا خطاب دیا تھا اس کا سجع اور نقش خاتم ’’راضی برضا‘‘ تھا۔ اس کا رنگ گندمی تھا‘ آنکھیں گہری۔ دراز ریش لحیم شحیم آدمی تھا۔ داڑھی میں حنا کا خضاب کرتا تھا۔ وفات کے وقت ۴۵ لڑکے زندہ تھے۔ عبدالرحمن ثانی کے عہد حکومت میں عیسائیوں کو سلطنت کے بڑے بڑے ذمہ داری کے عہدے دئیے جاتے تھے اور عیسائی جو عام طور پر عربی زبان بولتے اور لکھتے تھے دفتروں پر قابض و متصرف ہو گئے تھے۔ مسلمانوں کی توجہ زیادہ تر فوجی خدمات کی طرف تھی۔ دفتری اہل کاریوں کو انھوں نے عیسائیوں کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ محمد بن عبدالرحمن کی تخت نشینی سلطان عبدالرحمن ثانی کے زمانے میں عیسائیوں کا اثر و اقتدار دفاتر شاہی میں بہت بڑھ گیا تھا۔ مسلمان فقہاء اس حالت کو خاموشی کے ساتھ معائنہ کر رہے تھے اور سلطان حکم کے زمانے کا تجربہ کرنے کے بعد اب خاموش تھے مگر عیسائیوں کے اس رسوخ و اقتدار نیز ان شرارتوں اور گستاخیوں کو دیکھ دیکھ کر کبیدہ خاطر ضرور تھے۔ سلطان محمد کا پہلا کام سلطان محمد نے جو ربیع الآخر ۲۳۸ھ میں اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا تھا تخت نشین ہوتے ہی ذمہ داری کے عہدوں پر مسلمانوں کو مامور کیا اور ان عمال و حکام کو جو اسلامی احکام و اعمال کی پابندی میں ناقص تھے معزول کیا۔ سلطان محمد کی یہ پہلی کارروائی علماء اسلام کو بہت ہی پسند آئی۔ اسی عرصہ میں اندلس کے اندر بعض علماء کے ذریعہ جو حج کی غرض سے عرب و شام کے ملکوں میں آئے تھے حنبلی مذہب داخل ہوا۔ قرطبہ کے اندر حنبلی اور مالکی مولویوں کے مباحثے اور مناظرے شروع ہوئے اور مسلمانوں کے دو گروہ ہو کر آپس میں چھری کٹاری ہونے پر مستعد ہو گئے۔۱؎ سلطان محمد بن ۱؎ حنبلیوں اور مالکیوں‘ حنفیوں اور شافعیوں‘ سنیوں اور شیعوں کی ایسی لڑائیوں‘ باہمی قتل و غارت‘ ایک دوسرے پر کفر کے فتووں حتیٰ کہ ایک دوسرے سے لڑائی کے لیے ماہ رمضان المبارک میں دن کے وقت روزہ افطار کر دینے تک کے واقعات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔ دعوت تحقیق۔ سید وقار لی شاہ ص ۸ تا ۱۱۔