تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خوشی و خرمی سے اپنی عمر گذارے‘ اگر تم نے ان باتوں کا لحاظ رکھا تو تم شاندار بادشاہوں کی فہرست میں شامل ہو سکو گے۔‘‘ سلطان ہشام کا تمام عہد حکومت لڑائیوں اور چڑھائیوں میں گزرا‘ لیکن جب اس کے مذہبی‘ ۱؎ اگرچہ مالکی مسلک میں مجموعی طور پر کتاب و سنت کی طرف رجحان ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے مالکی‘ حنبلی‘ شافعی اور حنفی مسالک کی تعریف اور تقسیم کی کوئی سند نازل نہیں فرمائی تھی۔ دین اسلام تو مسلمان کو صحیح نصوص یعنی قرآن و حدیث کے مطابق اتفاق و اتحاد کا حکم دیتا ہے۔ علمی‘ اخلاقی‘ معاشرتی کارناموں پر غور کیا جاتا ہے تو اس بات کا تصور دشوار ہو جاتا ہے کہ سلطان ہشام نے جنگی کارنامے بھی کئے ہوں گے اور بڑے بڑے بادشاہوں کو نیچا دکھایا ہو گا‘ کثیر التعداد بغاوتوں کو فرو کیا ہو گا اور ہر ایک میدان میں فتح پائی ہو گی‘ بہرحال ملک اندلس میں خاندان بنو امیہ کی حکومت و سلطنت و خلافت کے قائم ہونے اور قائم ہو کر تین سو برس تک باقی رہنے کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ امیر عبدالرحمن بانی حکومت اندلس کے بعد ہشام جیسا ہمہ صفت موصوف سلطان تخت اندلس کا وارث و مالک ہوا‘ اگر سلطان ہشام کی جگہ کوئی دوسرا کم قابلیت والا سلطان ہوتا تو خاندان عبدالرحمن بن امیہ میں سلسلہ سلطنت کا قائم ہونا بے حد دشوار تھا افسوس ہے کہ سلطان ہشام کی مدت سلطنت بہت تھوڑی رہی‘ یعنی صرف سات برس اور آٹھ مہینے اس نے حکومت کی تاہم اس کی تلافی اس طرح ہو گئی‘ کہ ہشام کے بعد حکم بن ہشام بھی ایک نہایت موزوں شخص تھا‘ جو تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوا۔ حکم بن ہشام حکم بن ہشام اپنے باپ کی وفات کے بعد ۱۸۰ھ میں تخت نشین ہوا‘ اس کے تخت نشین ہوتے ہی ایک بہت بڑی بغاوت نے سر ابھارا۔ حکم کے چچا سلیمان اور عبداللہ کی بغاوت تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سلطان ہشام کا بھائی سلیمان افریقہ (مراکش) میں مقیم تھا‘ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے‘ سلیمان خط و کتابت کے ذریعہ اندلس کے اندر بھی مادئہ فساد و بغاوت پیدا کرنے میں مصروف تھا‘ ہشام کا دوسرا بھائی عبداللہ طیطلہ کے متصل اپنی جاگیر میں مقیم تھا‘ سلطان ہشام کی وفات کا حال سن کر عبداللہ فوراً طیطلہ سے بھاگ کر اپنے بھائی سلیمان کے پاس گیا‘ جو مراکش کے شہر تنجیر میں مقیم تھا اور اس کے پاس بربریوں اور ڈاکہ زنوں کی ایک کافی تعداد موجود تھی‘ وہاں کے علاقے کو ان لوگوں نے اپنی لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کا جولان گاہ بنا رکھا تھا‘ تبخیر میں دونوں بھائیوں نے سلطنت پر قبضہ کرنے کا مشورہ کیا‘ شارلیمین بادشاہ فرانس سے اور دوسرے سرحدی رئیسوں سے پہلے ہی سلیمان نے ساز باز کر رکھا تھا‘ اب تجویز یہ قرار پائی کہ عبداللہ خود شارلیمین کی خدمت میں فرانس جائے اور اس کو اندلس پر حملہ کرنے کی ترغیب دے‘ یعنی بادشاہ فرانس کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اندلس پر فوج کشی کر کے اس بغاوت کو جو ہم اندرون ملک میں برپا کریں گے کامیاب بنا دے۔ عبداللہ شارلیمین کے پاس گیا‘ وہاں شارلیمین نے وعدہ کیا اور ایک جرار فوج مرتب کر کے اپنے بیٹے کی سپہ سالاری میں سرحد اندلس پر روانہ کر دی۔ عبداللہ نے واپس آ کر طیطلہ کے عامل کو اپنے حسب منشا بغاوت پر آمادہ کر کے طیطلہ پر خود قبضہ کر لیا‘ طیطلہ اندلس کا قدیمی دارالسلطنت یعنی شاہان و زیگاتم کا