تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سمجھ کر بے پروائی سے مقابلہ کیا‘ مگر بربری لوگ جو شروع میں بھی بلا جنگ و جدل عربوں کے محکوم نہ ہوئے تھے‘ اب تو سو برس کے عرصہ میں اسلام کی بدولت بہت کچھ ترقی کر چکے تھے‘ ان کی شجاعت اور تہذیب میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو چکا تھا‘ وہ عربوں کے ساتھ بہت سی لڑائیوں میں شریک ہو ہو کر عربوں کی ہمسری کرنے لگے تھے‘ بربریوں نے شامیوں کو شکست دی۔ کلثوم بن عیاض کی قلعہ سبطہ میں محصوری کلثوم بن عیاض اپنی بہت سی فوج کو کٹوا کر دس ہزار شامیوں کے ساتھ قلعہ سبطہ میں محصور ہو گیا‘ یہ قلعہ جیسے کہ پہلے ذکر آ چکا ہے آبنائے جبل الطارق کے جنوبی ساحل پر واقع ہے‘ اہل اندلس اگر چاہتے تو کلثوم بن عیاض کو امداد پہنچا سکتے تھے‘ اس قلعہ کا فتح کرنا بربریوں کی طاقت سے باہر تھا‘ لیکن چوں کہ قلعہ میں سامان رسد نہ تھا‘ اس لیے محصورین کو فاقہ کی مصیبت کا مقابلہ کرنا پڑا اور سب سے بڑی امداد ان کی یہی تھی کہ کھانے پینے کا سامان ان کو پہنچایا جاتا۔ کلثوم بن عیاض نے عبدالملک بن قطن حاکم اندلس سے سامان رسد کی امداد طلب کی اپنی حالت زار سے مطلع کیا‘ عبدالملک نے بوجہ اس نفرت کے جو اس کو شامیوں سے تھی کلثوم اور اس کے ہمراہیوں کو کسی قسم کی امداد نہ پہنچائی‘ اندلس کے ایک امیر سوداگر زید بن عمرو کو جب سبطہ کی محصور فوج کا یہ حال معلوم ہوا تو اس نے کئی جہازوں میں سامان رسد بار کرا کر قلعہ سبطہ کی طرف روانہ کیا‘ اس کا حال جب عبدالملک کو معلوم ہوا تو اس نے زید بن عمرو کو گرفتار کرا کر نہایت ذلت کے ساتھ قتل کرا دیا۔ گورنر افریقہ پر حنظلہ کا تقرر خلیفہ دمشق یعنی ہشام بن عبدالملک کو جب لشکر شام کی اس تباہ حالی کا علم ہوا تو اس نے فوراً امیر حنظلہ کو ایک زبردست فوج دے کر مغرب الاقصیٰ کی جانب روانہ کیا‘ حنظلہ نے یہاں پہنچ کر بربریوں کو شکستیں دے کر درست کر دیا اور محصور فوج کو قلعہ سبطہ سے آزاد کیا‘ انہی ایّام میں کلثوم بن عیاض کا انتقال ہو گیا اور حنظلہ نے افریقہ کی حکومت و گورنری اپنے ہاتھ میں لی۔ عبدالملک بن قطن کا قتل ادھر اندلس میں جب یہ خبر پہنچی کہ افریقہ میں بربریوں کو خوب قتل کیا گیا ہے تو اندلس کے بربریوں نے متفق و متحد ہو کر عبدالملک بن قطن پر حملہ کیا‘ بربری لوگ صوبہ جلیقیہ اور اراگون میں بہ کثرت آباد تھے‘ صوبہ جلیقیہ شمال و مغرب میں تھا‘ اور اراگون یا ارغون شمال و مشرق میں‘ دونوں طرف سے بربریوں نے قرطبہ پر حملہ کیا اور عبدالملک بن قطن کو کئی شکستیں دیں۔ بربریوں کے اس فتنہ کا فرو کرنا جب امیر عبدالملک بن قطن نے اپنی طاقت سے باہر دیکھا تو مجبوراً بلج بن بشر بن عیاض قشیری سے‘ جو کلثوم بن عیاض کا بھتیجا اور کلثوم کے بعد مذکورہ دس ہزار شامی فوج کا افسر تھا‘ امداد طلب کی اور لکھا کہ اندلس آ کر ان بربریوں کے فتنے کو فرو کرانے میں ہماری امداد کرو‘ تو ہم اس کا کافی صلہ تم کو دیں گے‘ بلج بن بشر نے افریقہ کے جدید گورنر حنظلہ کے پاس رہنے کی نسبت اندلس میں جانا مناسب سمجھا‘ وہاں پہنچ کر بربری لشکروں کو شکستیں دے کر چند روز میں اس فتنے کو فرو کر دیا۔ اب اس شامی لشکر نے جب اندلس کے عربوں سے قلعہ سبطہ میں اپنی فاقہ کشی اور