تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آئے‘ مگر اس نے دشمنوں کے قتل کرنے میں حیرت انگیز طور پر تیز دستی اور بہادری دکھائی‘ لڑائی کے خاتمہ پر جب عبدالملک نے ہاتھ سے تلوار رکھنی چاہی تو اس کی انگلیاں نہیں کھل سکیں اور تلوار ہاتھ سے نہیں چھوٹی‘ اسی حالت میں امیر عبدالرحمن بھی پہنچ گیا‘ اس نے عبدالملک کے ہاتھ میں خون آلود تلوار دیکھ کر اور لڑائی کی روئداد سن کر کہا کہ بھائی عبدالملک میں اپنے لڑکے ہشام کی شادی آپ کی لڑکی سے کرنا چاہتا ہوں‘ اس کے بعد امیر عبدالرحمن نے عبدالملک بن عمر کو اپنا وزیز بنا لیا۔ یمنی قبائل یعنی اہل اشبیلیہ کے دو سردار عبدالغفار بن حامد حاکم شہر نبیلہ اور حیوۃ بن قلاقش حاکم اشبیلیہ اور عمر و حاکم بیجہ اس معرکہ سے بچ کر فرار ہو گئے تھے‘ انہوں نے پھر اپنے گرد عربی قبائل کو جمع کیا‘ ۱۵۷ھ میں امیر عبدالرحمن نے ان پر حملہ کیا اور شکست دے کر ان کو اور ان کے ہوا خواہوں کو قتل کر ڈالا‘ ان واقعات سے امیر عبدالرحمن کو عرب قبائل کی طرف سے بڑی بدگمانی اور بے اعتباری ہو گئی‘ چنانچہ اس نے عجمیوں اور غلاموں کو بھرتی کرنا شروع کیا تاکہ ان لوگوں یعنی عرب قبائل کی بغاوتوں اور سرکشیوں سے امن مل سکے‘ یہی مجبوریاں غالباً خلفائے عباسیہ کو بھی پیش آئی ہوں گی جن کی وجہ سے انہوں نے باوجود اس کے کہ وہ عرب تھے‘ عربوں پر دوسری قوموں کو ترجیح دی اور عربوں کی غداری سے ہمیشہ ڈرتے ہی رہے۔ ۱۶۰ھ میں عبدالرحمن نے ایک لشکر ابن عبدالواحد کی طرف روانہ کیا‘ اس لشکر نے جا کر قلعہ شیطران کا محاصرہ کر لیا اور ایک مہینے تک محاصرہ کیے رہنے کے بعد بے نیل و مرام واپس آیا‘ آخر ۱۶۲ھ میں ابن عبدالواحد قلعہ شیطران سے نکل کر علاقہ شتت بریہ کے ایک گائوں آیا اس کے ہمراہیوں میں سے دو شخص ابو معین اور ابو حریم نے اس کو قتل کر ڈالا اور اس کا سر لے کر امیر عبدالرحمن کی خدمت میں حاضر ہو گئے‘ اس طرح اس فتنہ کا عرصہ دراز کے بعد خاتمہ ہوا۔ ابھی ابن عبدالواحد قتل نہ ہوا تھا کہ ۱۶۱ء میں عبدالرحمن بن حبیب فہری معروف بہ صقلبی نے افریقہ میں فوجیں آراستہ کر کے اندلس پر قبضہ کرنے کے ارادے سے چڑھائی کی اور تدمیر کے میدان میں پہنچ کر قیام کیا‘ یہاں اندلس کے بہت سے بربری آ آ کر اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے‘ عبدالرحمن بن حبیب نے سلیمان بن یقظان والی برشلونہ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم خلافت عباسیہ کی اطاعت قبول کر لو‘ ورنہ مجھ کو اپنے سر پر پہنچا ہوا سمجھو سلیمان نے انکار کیا اور عبدالرحمن بن حبیب نے سلیمان پر حملہ کیا‘ مقابلہ ہوا اور سلیمان نے عبدالرحمن بن حبیب فہری کو شکست دے کر بھگا دیا‘ عبدالرحمن بن حبیب نے میدان تدمیر میں آ کر دم لیا‘ امیر عبدالرحمن بن معاویہ کو جب یہ حال معلوم ہوا تو وہ قرطبہ سے فوج لے کر میدان تدمیر کی طرف روانہ ہوا‘ عبدالرحمن بن حبیب امیر عبدالرحمن کے آنے کی خبر سن کر کوہ نبسیہ میں جا کر پناہ گزین ہوا۔ امیر عبدالرحمن بن معاویہ نے اشتہار دیا کہ جو شخص عبدالرحمن بن حبیب کا سر کاٹ کر لائے گا اس کو اس قدر انعام دیا جائے گا اس انعام کے مشتہر ہوتے ہی ایک بربری کی جو عبدالرحمن بن حبیب کے ہمراہیوں میں تھا نیت بگڑی اس نے موقعہ پا کر عبدالرحمن بن حبیب کا سر کاٹ لیا اور امیر عبدالرحمن کی خدمت میں لا کر پیش کیا پھر انعام وصول کر کے چل دیا اسی طرح ۱۶۲ھ میں عبدالرحمن بن حبیب کے مارے جانے پر اس مہم کا خاتمہ ہو گیا اور امیر عبدالرحمن اطمینان سے اپنے دار السلطنت قرطبہ کی طرف واپس آیا۔