تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آدمی جنگ قرمونہ میں عبدالرحمن اور اس کے ہمراہیوں کے ہاتھ سے مقتول ہوئے تھے‘ یمنی لوگوں کو اپنے ۱؎ قرآن و سنت اور خلفائے راشدین کی سیرت سے ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا کہ باغیوں یا دیگر مجرموں کو سزا دیتے ہوئے دیگر سزائوں کے ساتھ ان کی داڑھی بھی مونڈ دی جائے۔ اس لیے اگر یہ واقعہ درست ہے تو امیر عبدالرحمن باغیوں کی داڑھیوں کو مونڈ دینے کا فعل غلط ہے۔ ان مقتولین کا قصاص لینے کی خواہش تھی‘ چنانچہ اسی سال یعنی ۱۴۷ھ میں سعید یحصبی نے جو مطری کے نام سے مشہور تھا خروج کیا اور شہر لبلہ میں فوجیں فراہم کر کے اشبیلیہ پر قابض و متصرف ہو گیا‘ امیر عبدالرحمن یہ خبر پا کر قرطبہ سے فوج لے کر مطری کی سرکوبی کے لیے اشبیلیہ کی جانب روانہ ہوا‘ مطری نے اشبیلیہ کے ایک قلعہ میں قلعہ بند ہو کر مدافعت شروع کی اور عبدالرحمن نے اشبیلیہ کا محاصرہ کر لیا‘ عتاب بن علقمی شہر شدونہ میں تھا وہ مطری کے ساتھ اس بغاوت میں شرکت کا وعدہ کر چکا تھا‘ چنانچہ مطری کے محصور ہونے کی خبر سن کر عتاب بن علقمی شدونہ سے فوج لے کر روانہ ہوا۔ امیر عبدالرحمن نے یہ خبر سن کر اپنے خادم بدر کو ایک حصہ فوج دے کر روانہ کیا کہ عتاب کو مطری تک نہ پہنچنے دیا جائے اور دونوں کے درمیان خود حائل رہے۔ ادھر سعید معروف بہ مطری مارا گیا۔ اہل قلعہ نے ایک شخص خلیفہ بن مروان کو اپنا سردار بنا لیا‘ مگر آخر مجبور ہو کر امن کی درخواست دی‘ عبدالرحمن نے اس درخواست کو منظور کر کے قلعہ مسمار کرا دیا‘ اور خود قرطبہ کی جانب واپس آیا اس کے بعد ہی علاقہ جیان میں عبداللہ بن خراشہ اسدی نے علم بغاوت بلند کیا اور عبدالرحمن کے مقابلہ کو فوج جمع کی‘ امیر عبدالرحمن نے فوراً ایک فوج اس طرف روانہ کی‘ عبداللہ کے ہمراہیوں نے یہ سن کر کہ عبدالرحمن کی فوج آ رہی ہے‘ عبداللہ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ عبداللہ اسدی نے امیر عبدالرحمن سے معافی کی درخواست کی‘ امیر نے اس کو معافی دے دی۔ ۱۵۰ھ میں غیاث بن میر اسدی نے علم بغاوت بلند کیا‘ ولایت باجہ کے عامل نے فوجیں فراہم کر کے اس کا مقابلہ کیا‘ معرکۂ کارزار میں غیاث مارا گیا‘ اس کی فوج شکست کھا کر منتشر ہو گئی عامل باجہ نے غیاث کا سر کاٹ کر بشارت نامہ کے ساتھ امیر عبدالرحمن کی خدمت میں بھیج دیا اسی سال یعنی ۱۵۰ھ میں امیر عبدالرحمن نے شہر قرطبہ کی شہر پناہ کا سنگ بنیاد رکھا‘ ۱۵۱ھ میں ایک شخص شقنہ بن عبدالواحد نے جو بربر کے قبیلہ مکناسہ سے تعلق رکھتا تھا اور تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے معلمی کا پیشہ کرتا تھا یہ دعویٰ کیا کہ میں سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہوں اور میرا نام عبداللہ بن محمد ہے‘ اس شخص کو عباسیوں کی سازشی کار روائیوں کا علم تھا‘ نیز علویوں کے دعاۃ مکناسہ اور علاقہ بربر میں آتے رہتے تھے‘ جن کا اس کو علم تھا‘ لہٰذا اس نے اندلس کی حکومت کو درہم برہم کرنے کی جرأت و جسارت کی اس کی یہ اولوا لعزمی کچھ زیادہ عجیب بھی نہ تھی‘ کیوں کہ بہت جلد بربریوں کی ضعیف الاعتقاد قوم اس کے گرد جمع ہو گئی‘ بربریوں کے علاوہ بعض لوگ اور بھی اس کے معتقد ہو گئے‘ ابن عبدالواحد نے اپنی کرامت اور خرق عادت باتوں کا بھی ان لوگوں کو یقین دلایا ایک مجمع کثیر جب اس کے معتقدین کا فراہم ہو گیا تو اس نے علم بغاوت بلند کیا اور اندلس کے مشرقی صوبہ بلنسیہ کے مقام شیطران پر قابض و متصرف ہو گیا‘ امیر عبدالرحمن یہ خبر سن کر اس کی سر کوبی کے لیے قرطبہ سے روانہ ہوا۔