تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عباسی خلیفہ کو بھی اپنے ساتھ لے لیا‘ روانگی کے وقت جب کہ ابھی سلطان کے لشکر نے قاہرہ سے کوچ کر کے چند ہی میل کا فاصلہ طے کیا تھا‘ سلیم عثمانی نے اپنے وزیر اعظم یونس سے جو اس کی برابر گھوڑے پر سوار باتیں کرتا جا رہا تھا کہا کہ اب بہت جلد ہم سرحد شام میں پہنچ جائیں گے وزیر نے کہا کہ ہم اس سفر میں اپنی نصف فوج ضائع کر کے واپس ہو رہے ہیں اور مصر کا ملک پھر انہی لوگوں کو دیئے جاتے ہیں جن سے اس قدر محنت کے بعد فتح کیا تھا وزیر یونس نے یہ بھی کہا کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ مصر پر حملہ آور ہو کر ہم نے کیا نفع حاصل کیا‘ یہ سنتے ہی سلطان نے اپنے ہمراہی سواروں کو حکم دیا کہ اس کا سر اڑا دو‘ چنانچہ فوراً یونس کا سر اڑا دیا گیا‘ سلطان سلیم اپنے وزیروں اور مصاحبوں کے لیے بڑا سخت گیر تھا مگر بخلاف اس کے وہ علماء کی ہر گستاخی اور سختی کو بخندہ پیشانی برداشت کر لیتا تھا حقیقت یہ ہے کہ یونس شروع ہی سے مصر کی فتح کے خلاف تھا اور اس نے مصر پر حملہ آوری کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی تھی اب بھی اس نے اپنی اسی رائے کا اظہار کیا حالانکہ سلطان سلیم نے مصر کو فتح کر کے سلطنت عثمانیہ کی عظمت کو بہت ترقی دے دی تھی‘ اس حملہ آوری اور مصر سے واپس آنے تک سلطان کے قریباً دو سال صرف ہوئے‘ لیکن شام‘ عرب اور مصر تین ملکوں کا اضافہ سلطنت عثمانیہ میں ہو گیا اس سے بڑھ کر یہ نفع صاحل ہوا کہ سلطان سلیم عثمانی حملہ آوری کے وقت محض سلطان سلیم تھا اور اب واپسی کے وقت وہ خلیفۃ المسلمین سلطان سلیم تھا اور خلیفۃ المسلمین ہونے کی وجہ سے تمام عالم اسلامی میں وہ مقتداء اور پیشوا سمجھے جانے کا استحقاق حاصل کر چکا تھا۔ مصر سے واپس آ کر سلطان سلیم نے دمشق میں کئی مہینے قیام کیا‘ بعض رواتیوں کے موافق وہ دمشق سے حج بیت اللہ کے لیے گیا‘ مگر عام طور پر یہی مشہور ہے کہ سلطان سلیم یا اور کوئی عثمانی سلطان حج بیت اللہ کے لیے کبھی نہیں گیا‘ دمشق میں رہ کر سلطان سلیم نے عرب سرداروں سے اطاعت کے اقرار لیے اور ان کے ساتھ تعلقات بڑھائے دمشق سے روانہ ہو کر حلب میں آیا اور یہاں بھی بہت دنوں مقیم رہا اس سفر یعنی واپسی میں اس نے حجاز و شام کے متعلق اپنی حکومت و سلطنت کے استحکام کی تدبیروں سے خوب کام لیا‘ اور ملک شام کو بہت سے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک کمشنری یا ضلع میں الگ الگ عامل مقرر کئے جس سے کسی خطرناک بغاوت کا امکان جاتا رہا یہاں سے فارغ ہو کر ۹۲۴ھ میں سلطان سلیم قسطنطنیہ واپس پہنچا۔ سلطان سلیم نے قسطنطنیہ واپس آ کر ریاست وینس سے جزیرہ قبرص (ساپئرس) کا خراج وصول کیا وینس والے اس جزیرے کا خراج مصر کے مملوکی سلطان کو ادا کیا کرتے تھے اب جب کہ مصر سلطان عثمانی کے قبضے میں آ گیا تو سلطان نے ان سے وہ خراج وصول کرنا شروع کیا اور وینس والوں نے اقرار کیا کہ ہم ہمیشہ سلطان عثمانی کی خدمت میں خراج ادا کرتے رہیں گے۔ اندلس کی عیسائی سلطنت نے سلطان کی خدمت میں ایک سفارت بھیج کر استدعا کی کہ جو عیسائی شام و فسلطین کے مقدس شہروں کی زیارت کو جائیں تو ان کی حفاظت کی جائے سلطان سلیم نے اس درخواست کو فوراً منظور کر لیا اور وعدہ کیا کہ عیسائی زائرین کو میری حدود سلطنت میں کوئی آزار نہ پہنچایا جائے گا‘ شاہ ہنگری سے جو صلح