تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
سلطان سلیم مسجد میں پہنچا تو اس نے اس امتیازی مصلے کو فوراً اٹھوا دیا اور عام نمازیوں کی طرح نماز ادا کی اور نماز میں سلطان پر اس قدر رقت طاری ہوئی کہ اس کے آنسوئوں سے زمین تر ہو گئی‘ فتح مصر کے بعد سلطان نے مصر سے اعلیٰ درجہ کے معماروں اور صناعوں کی ایک تعداد بذریعہ جہاز قسطنطنیہ روانہ کر دی تھی‘ جیسا کہ اس نے تبریز سے بھی بہت سے کاریگروں کو قسطنطنیہ بھیج دیا تھا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ سلطان سلیم کی نظر کس قدر وسیع وعمیق تھی اور اپنے دارالسلطنت کی رونق و عظمت بڑھانے کا اس کو کس قدر خیال تھا‘ عجیب تربات یہ ہے کہ مصر میں اس قدر زیادہ مدت رہنے کے باوجود اس نے اہرام مصری کی طرف مطلق التفات نہ کیا نہ ان کی سیر کے لیے گیا ہاں اس نے مصر کی مساجد اور مدرسوں کی طرف خصوصی توجہ مبذول رکھی‘ علماء کی عزت بڑھائی ان کے روزینوں میں اضافہ کیا‘ سلطان نے مصر ہی میں اس بات کو سوچ لیا تھا کہ ملک عرب پر بھی قبضہ و قسلط کا ہونا ضروری ہے۔ ملک عرب کے مقدس شہروں مثلاً مدینہ و مکہ وغیرہ میں عرب سرداروں کی سیادت قائم تھی‘ ان شہروں میں جنگی نمائش اور فوجی کارروائیوں کی مطلق ضرورت نہ تھی بلکہ سب سے زیادہ ضرورت ان شہروں کے باشندوں کو رضا مند کرنے اور ان کے قلوب پر قبضہ کرنے کی تھی‘ چنانچہ سلطان سلیم نے اس مقصد کے حاصل کرنے میں مطلق دھوکہ نہیں کھایا اور اس نے احسانات کی بارشوں سے عرب سرداروں کے قلوب کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اس سے پیشتر عرب یعنی حجاز کے بادشاہ مملوکی سمجھے جاتے تھے اب ان کی حکومت مٹ جانے کے بعد سلطان سلیم ملک حجاز کا بادشاہ سمجھا گیا‘ لیکن اگر عرب سردار چاہتے تو سلطان کو اپنا بادشاہ تسلیم نہ کرتے اور مقابلہ سے پیش آتے مگر سلطان سلیم کو عربوں پر مہربان دیکھ کر عرب سرداروں نے خود بخود اس کے پاس مبارک باد کے پیغامات بھیجے‘ اور اس کو خادم الحرمین الشریفین کا خطاب دیا‘ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے مصر میں عباسی خلیفہ مملوکیوں کے پاس اسی طرح شان و شوکت اور اخوت کے ساتھ رہتے تھے۔ جیسے روما میں پوپ یا دہلی میں اکبر ثانی اور بہادر شاہ آخری سلاطین مغلیہ رہا کرتے تھے ان عباسی خلفاء کی حکومت تو کچھ نہ تھی‘ نہ کسی ملک پر ان کا قبضہ تھا نہ کوئی فوج ان کے ماتحت تھی مگر نہ صرف مصر کے مملوکی سلاطین بلکہ دوسرے ممالک اسلامی کے فرماں روا بھی ان سے خطابات اور سند حکومت حاصل کرنے کو موجب فخر جانتے تھے اور وہ مذہبی پیشوا سمجھے جاتے تھے‘ سلطان سلیم نے خلفائے عباسیہ کی اس اہمیت اور عہدہ خلافت کے اثر کو بخوبی محسوس کر لیا تھا اس نے مصر کے موجودہ آخری خلیفہ کو اس بات پر رضا مند کر لیا کہ وہ خود ہی عہدہ خلافت سے دست بردار ہو کر ان چند تبرکات کو جن کو وہ بطور نشان خلافت وراثتاً اپنے قبضے میں رکھتا تھا سلطان سلیم کے سپرد کرے اور سلطان سلیم کو مسلمانوں کا خلیفہ مان لے‘ ان تبرکات میں ایک علم ایک تلوار اور ایک چادر تھی‘ یہ چیزیں عباسی خلیفہ نے سلطان سلیم کو دے کر اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس طرح مسلمانوں میں ایک نام کے خلیفہ کی جگہ حقیقی معنوں میں خلیفہ موجود ہو گیا‘ خلیفہ کے معنی درحقیقت مسلمانوں کے سب سے بڑے بادشاہ اور بادشاہ کے ہیں‘ سلطان سلیم کے سوا اس وقت کی اسلامی دنیا میں کوئی شخص خلافت کا مستحق بھی نہ تھا‘ ۹۲۳ھ کے آخر ایام میں سلطان سلیم مصر سے ایک ہزار اونٹ چاندی سونے سے لدے ہوئے لے کر روانہ ہوا اور آخری