تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
قائم تھی اس کی میعاد قریب الختم ہونے کے سبب شاہ ہنگری نے میعاد صلح کی توسیع چاہی اور سلطان نے اس درخواست کو بلا تامل منظور کر لیا‘ سلطان سلیم کی فتوحات جو اس کو ایشیا و افریقہ میں حاصل ہوئی تھیں ایسی نہ تھیں کہ ان کا اثر یورپ والوں پر نہ ہوتا‘ سلطان سلیم نے ایک طرف اپنی حدود سلطنت کو بہت وسیع کیا دوسری طرف خلیفۃ المسلمین ہو جانے کی وجہ سے اس کی عظمت و شوکت میں بہت ترقی ہو گئی تھی‘ یورپ کے تمام سلاطین لرز رہے تھے کہ یہ ابربارندہ کہیں ہم پر نہ برس پڑے اور یہ برق جہندہ کہیں یورپ میں ہماری خرمن ہستی کو نہ جلا دے۔ سلطان سلیم کے مصر سے واپس آنے کے بعد ہی عیسائی سلاطین نے پیغام صلح بھیجنے شروع کیے اور سفارش کے ذریعے اپنی نیاز مندی کا یقین دلانے لگے‘ سلطان سلیم اگرچہ بے حد سخت گیر و غضب ناک شخص تھا مگر انتہا درجہ کا مآل اندیش اور دوربین بھی تھا وہ ایسا بیوقوف نہ تھا کہ ان خوشامدی لوگوں کی باتوں میں آ کر عواقب امور سے غافل رہتا وہ عیسائیوں کی شرارتوں اور ریشہ دوانیوں سے خوب واقف تھا اس نے مصر و شام‘ حجاز و عراق و مغربی ایران کو اپنی حدود حکومت میں داخل کر کے ایک عظیم الشان بادشاہی قائم کر لی تھی جو ایشیا و افریقہ اور یورپ تینوں براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی‘ اس کے بعد اب اس کے لئے یورپی عیسائی ممالک ہی باقی تھے اور وہ ان ملکوں کی فتح کے خیال سے ہرگز غافل نہیں رہ سکتا تھا‘ جن کی فتح کے لئے اس کے بزرگوں نے مسلسل کوششیں جاری رکھی تھیں سلطان سلیم کے بزرگوں کی اکثر زور آزمائیاں عیسائی سلاطین کے ساتھ رہی تھیں تمام مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ سلطان اعلیٰ درجہ کا مذہبی شخص تھا اور اس میں دینی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ سلطان سلیم نے اب تک مسلمانوں ہی سے لڑائیاں کیں‘ اور مسلمانوں ہی کے قبضے سے ملک نکالے‘ مگر حقیقت یہ تھی کہ سلطان سلیم نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوں کے اندر خالص دینی جذبہ بہت کم ہو گیا ہے اور رذائل نے مسلمانوں کے اخلاق میں دخل پا کر مصالح دینی کو برباد کر دیا ہے۔ تیمور و بایزید کی جنگ اس خطرہ کا سب سے بڑا اعلان تھا‘ سلطان محمد خان ثانی فاتح قسطنطنیہ نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے اور عیسائی سلطنت کو مٹا کر ایک حد تک اطمینان کی شکل پیدا کر دی تھی لیکن پھر بھی ایشیائے کوچک کی بغاوتیں سلاطین عثمانی کو پریشان رکھتی تھیں‘ اسمٰعیل صفوی کی ریشہ دوانیوں اور شرانگیزیوں نے سلیم عثمانی کو تخت نشین ہوتے ہی اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا‘ لہٰذا اس نے سب سے پہلے ایران کی شیعہ سلطنت کو سزا دے کر اور اس کے ضروری صوبوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر کے مشرقی خطرے کا بندوبست کیا‘ اب ایرانیوں کی طرف سے کسی حملہ آوری کا کوئی اندیشہ باقی نہ تھا اور شیعوں کے ایشیائے کوچک میں قتل کرا دینے سے کسی خطر ناک سازش کا بھی اندیشہ نہ رہا۔ مصر کی اسلامی سلطنت نے چوں کہ شہزادہ مصطفیکے معاملہ میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف طاقت کا اظہار کیا تھا اس لیے مصر کا خطرہ بھی ایرانی خطرے سے کم نہ تھا سلطان سلیم نے مناسب نہ سمجھا کہ مصریوں کو نیچا دکھائے بغیر عیسائی ممالک پر حملہ آور ہو کیونکہ عیسائی سلاطین مصری سلاطین کو عثمانیہ سلطنت کے خلاف ابھارنے کی کوشش کر سکتے تھے مصر کو فتح کرنے کے بعد سلطان سلیم کے لیے اصل کام یعنی یورپ کو فتح کرنا باقی تھا‘ سلطان سلیم کی مآل اندیشی دوربینی قابل تعریف ہے کہ اس نے مصر سے واپس آ کر عیسائی ممالک پر حملہ آور ہونے میں جلدی نہیں کی‘ بلکہ