تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مذہبی اعتبار سے عربوں کی عزت و سرداری عام طور پر مسلم تھی اور مصر کے عرب باشندے شام و حجاز کے عربوں سے تعلقات رکھنے کے سبب ایک زبردست سیاسی اہمیت تھے۔ مصر میں ان کی نسلیں بھی بڑھ گئی تھیں اور اب وہ ایک حکمران قوم کی حیثیت سے مصر میں کافی اقتدار رکھتے تھے مصر کے قدیم باشندے یعنی قبطی قوم اور یہودی نسلیں بھی زراعت پیشہ اور دفتروں کے حساب کے کاموں پر مامور ہونے کی وجہ سے بہت کچھ اثر رکھتے تھے‘ ادھر مصر کے مغربی و جنوبی سمتوں کے سرحدی صوبوں اور علاقوں کی قومیں بھی مصر پر چڑھائی کرنے اور قابض ہونے کی استعداد رکھتی تھیں‘ اندریں صورت اگر سلطان سلیم کسی گورنر کو مصر کی حکومت پر مامور کرتا تو وہ موقعہ رکھتا تھا کہ شام و حجاز اور مغربی ممالک کی قوموں کو اپنے ساتھ شریک کر کے خود مختاری کا اعلان کر دے‘ اگر ایسا حاکم مقرر کرتا جو عالی حوصلہ اور اولوالعزم نہ ہوتا اور بغاوت کا خیال بھی دل میں نہ لا سکتا تو اس سے ملک کے اندر امن و امان قائم نہ رہ سکتا تھا‘ سلطان سلیم اگر مصر کو فتح کرنے کے بعد فوراً ہی واپس چلا جاتا تو یقیناً ملک مصر فوراً اپنی خود مختاری کا پھر اعلان کر دیتا اور دوبارہ سلطان کو پھر اسی قدر زحمت گوارا کرنی پڑتی‘ سلطان سلیم نے مصر کو فتح کرنے کے بعد مصر میں بہت دنوں قیام رکھا اور یہاں کے حالات کو بغور مطالعہ کرتا رہا اس کا ارادہ تھا کہ طرابلس وغیرہ کی طرف بڑھ کر تمام شمالی افریقہ کو مراکش تک فتح کر لے اگر ایسا ہوتا تو بہت ہی خوب ہوتا کیوں کہ پھر اندلس کا فتح کر لینا کوئی بڑی بات نہ تھی مگر اس کی فوج نے آگے بڑہنے سے انکار کیا اور سلطان سلیم کو مجبوراً قسطنطنیہ کی طرف واپس ہونا پڑا۔ مملوکیوں سے مصر کی حکومت چھین لینے کے بعد سلطان سلیم کے لیے بہت ہی آسان تھا کہ مملوکیوں کی قوم کو مصر سے نیست و نابود کرنے کی کوشش کرتا‘ لیکن اس نے بڑی دانائی اور نہایت عقل مندی کے ساتھ مملوکیوں کی طاقت و تعداد کو قائم رکھا اور اپنی طرف سے مملوکیوں کے سردار یعنی غدار خیری بے کو مصر کی گورنری پر مامور کیا اور اجازت دی کہ جس طرح مملوکیوں کی کونسل یا پارلیمنٹ چوبیس سرداروں پر مشتمل ہوا کرتی تھی وہ اب بھی اسی طرح قائم ہو مملوکیوں میں دستور تھا‘ کہ چوبیس مملوکی سردار جو اعلیٰ عہدوں پر مامور ہوا کرتے تھے اپنے سلطان کے فوت یا قتل یا معزول ہونے پر اپنی کثرت رائے سے کسی ایک سردار کو سلطان منتخب کر لیا کرتے تھے‘ ان سرداروں کی تعداد بد ستور قائم رکھی گئی اور ان کے عہدے بھی بد ستور بحال رہے۔ مگر مصر کا حاکم سلطان عثمانی کی منظوری سے مقرر ہونا تجویز ہوا ساتھ ہی یہ اصلاح بہت ہی معقول کی گئی‘ کہ قاضی القضاۃ اور مفتی وغیرہ کے تمام مذہبی عہدے عرب سرداروں کے ساتھ مخصوص کیے گئے‘ روپیہ کی تحصیل و وصولی کا کام اور عہدے قبطیوں اور یہودیوں کو دیئے گئے‘ اس طرح دو عملی بلکہ سہ عملی انتظام قائم کر کے پانچ ہزار سوار اور پانچ سو پیدل سلطان سلیم نے اپنی فوج میں سے قاہرہ میں تعینات کئے اور خیرالدین نامی سردار کو اس فوج کا سپہ سالار مقرر کر کے حکم دیا کہ شہر قاہرہ اور مرکزی قلعوں پر تمہارا قبضہ رہنا چاہیے اور کسی حالت میں بھی تم کو شہر یا قلعہ میں باہر جانے کی اجازت نہیں ہے اس طرح تمام خطرات کا سد باب ہو گیا‘ سلطان نے قاہرہ کی فتح کے بعد جب جمعہ کا دن آیا تو مصر کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کی‘ سلطان کے لیے پہلے سے نہایت قیمتی قالین مسجد میں بچھا دیا گیا تھا‘ جب