تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
راہ نظر آیا‘ سلیم کو اب بڑی مشکلات کا سامنا تھا اور ایک ایسا شہر بھی جو اپنی کوئی فصیل نہیں رکھتا فتح نہ ہو سکتا‘ سلطان سلیم کے لیے بڑی ذلت کی بات تھی اور اس کی شہرت کو یقیناً سخت صدمہ پہنچتا اگر وہ قاہرہ کو چھوڑ کر واپس چلا جاتا یہ ایسا گرم دودھ تھا جس کو نہ نگل سکتا تھا نہ اگل سکتا تھا‘ تین دن تک برابر قاہرہ کی گلیوں یعنی بیرونی محلوں میں جنگ و پیکار کا بازار گرم رہا مگر سلیم قاہرہ کے کسی محلہ میں اپنے قدم نہ جما سکا سلطان سلیم نے جب دیکھا کہ طومان بے کو قاہرہ سے بے دخل کرنا دشوار ہے اور مشکلات بڑہتی چلی جاتی ہیں تو اس نے مملوکی غدار خیری بے کو جو جنگ رضوانیہ ہی میں اس کے پاس چلا گیا تھا بلوایا اور کہا کہ اب تم ہی کوئی تدبیر بتائو‘ خیری بے نے کہا کہ آپ اب یہ اعلان کرا دیجئے کہ جو مملوکی ہتھیار رکھ دے گا اور ہمارے پاس چلا آئے گا اس کے جان و مال کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا اور اس کے ساتھ مہربانی کا برتائو کیا جائے گا اس اعلان کے ہوتے ہی لڑائی رک گئی‘ اور سلیم نے بھی اپنی فوج شہر کے اطراف سے واپس اپنے کیمپ میں بلا لی‘ بعض کو شہر والوں نے باصرار لشکر سلطانی میں حاضر ہونے پر مجبور کیا اس طرح آٹھ سو مملوکی سلطان سلیم کے لشکر میں حاضر ہو کر سلطان کے قیدی بن گئے ان کو توقع تھی کہ اپنے وعدے کے موافق سلطان ہمارے ساتھ نیک سلوک کرے گا‘ لیکن جب یہ معلوم ہو گیا کہ یہی آٹھ سو مملوکی سردار قاہرہ کی سب سے بڑی طاقت تھے تو خیری بے کے مشورہ کے موافق سلطان سلیم نے ان سب کو قتل کرا دیا اور اس کے بعد شہر قاہرہ میں قتل عام کا حکم دیا۔ طومان بے یہ دیکھ کر کہ اب مقادمت اور مدافعت کی طاقت موجود نہیں رہی قاہرہ سے نکل کر ریگستان کی طرف عربی قبائل میں چلا گیا اور سلطانی فوج نے شہر میں قتل عام شروع کیا اس قتل میں پچاس ہزار آدمی مارے گئے‘ قرط بے جو طومان بے کا دست راست اور بڑا ہی بہادر شخص تھا قاہرہ کے اندر ایک مکان میں روپوش رہا‘ قتل عام سے فارغ اور شہر والوں کو کافی طور پر کمزور و خائف بنا کر سلطان نے طومان بے اور قرط بے کے تلاش کرنے کا حکم دیا آخر معلوم ہوا کہ طومان بے تو قاہرہ سے نکل گیا ہے‘ لیکن قرط بے ابھی تک قاہرہ میں موجود اور روپوش ہے‘ سلیم نے قرط بے کے پاس پیغام بھیجا‘ کہ اب مملوکیوں کی طاقت ٹوٹ چکی ہے ہم تمہاری بہادری دیکھ چکے ہیں تم بلا تامل ہمارے پاس چلے آئو تم کو جان کی اماں دی جاتی ہے۔ قرط بے نے جب دیکھا کہ اب اگر سلیم کے اس وعدہ معافی کو قبول نہیں کرتا تب بھی گرفتار ہو کر اس کے سامنے پیش ہوں گا‘ فوراً سلطان سلیم کے پاس چلا آیا۔ سلیم نے اس کو دیکھ کر کہا کہ جنگ رضوانیہ کے دن میں نے تجھ کو گھوڑے پر سوار دیکھا تھا تو بڑی بہادری اور بے باکی کا اظہار کرتا تھا مگر اس وقت تو بہت خاموش نظر آتا ہے قرط بے نے کہا کہ میں اب بھی ویسا ہی بہادر ہوں‘ لیکن تم عثمانی بڑے بزدل اور نامرد ہو تمہاری ساری بہادری اور فتح مندی بندوق کی بدولت ہے‘ ہمارے سلطان قانصوہ غازی کے زمانہ میں ایک فرنگی بندوق لے کر آیا‘ اور اس نے سلطان قانصوہ غازی کی خدمت میں عرض کیا کہ تمام مملوکی فوج کو بندوقیں فراہم کر دی جائیں تو یہ مفید ہو گا‘ ہمارے سلطان اور تمام اراکین دربار نے کہا کہ لڑائی میں بندوقوں سے کام لینا بڑی نامردی کی بات ہے ہم اس کو ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرتے‘ اس وقت اس فرنگی نے سردربار یہ کہا تھا کہ تم دیکھ لو گے کہ ایک روز انہی بندوقوں کی بدولت سلطنت مصر