تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تمہارے قبضے سے نکل جائے گی ہم نے آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ تم نے بڑی نامردی کے ساتھ محض ان بندوقوں کی بدولت ہم پر فتح پا لی لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ بندوق فتح و شکست کا اصل سبب ہرگز نہیں ہو سکتی‘ فتح و شکست کے لیے تلوار و تیر ہی سب سے زیادہ موثر چیزیں ہیں‘ ہم کو یہ شکست اس لیے ہوئی ہے کہ ہماری حکومت و سلطنت اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ رکھنی منظور نہ تھی‘ اسی طرح تمہاری حکومت و سلطنت بھی ایک روز ضرور ختم ہو جائے گی‘ دنیا میں جس طرح انسانوں کی عمریں محدود ہوتی ہیں اسی طرح سلطنت و حکومت کی ایک عمر ہوتی ہے‘ جس کے بعد وہ ختم ہو جاتی ہیں‘ تم ہرگز ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ ہم سے زیادہ بہادر ہونے کی وجہ سے تم نے فتح پائی‘ سلطان سلیم نے کہا کہ اگر تو ایسا ہی بہادر ہے تو اس وقت میرے سامنے ایک قیدی کی حیثیت سے کیوں موجود ہے؟ قرط بے نے کہا کہ میں اللہ کی قسم اپنے آپ کو تیرا قیدی نہیں سمجھتا میں صرف تیرے وعدے پر اعتماد کر کے اپنی خوشی سے تیرے پاس چلا آیا ہوں اور اپنے آپ کو بالکل آزاد سمجھ رہا ہوں‘ سلطان سلیم اور قرط بے کی گفتگو یہیں تک ہونے پائی تھی‘ کہ قرط بے کی نظر خیری بے پر پڑی‘ جو سلیم کے ہوا خواہوں اور امیروں میں شامل ہو چکا تھا اس نے فوراً خیری بے کی طرف متوجہ ہو کر اس کو سخت لعنت ملامت کی جس سے اس کی اس مجلس میں بڑی بے عزتی ہوئی اور پھر سلطان سلیم سے مخاطب ہو کر کہا کہ تیرے لیے مناسب یہی ہے کہ اس دغا باز کا سر اڑا دے اور اس کو اس کی غداری و مکاری کی سخت سزا دے ورنہ یہ تجھ کو بھی اپنے ساتھ دوزخ میں لے جائے گا‘ یہ سن کر سلطان سلیم نے طیش اور غضب کے لہجے میں جواب دیا کہ میرا ارادہ تھا کہ تجھ کو آزاد کر کے کوئی بڑا جنگی عہدہ تجھ کو عطا کروں گا مگر تو نے اب تک بڑی بد تہذیبی کی گفتگو کی ہے‘ اور آداب دربار سلطانی کو مطلق ملحوظ نہیں رکھا‘ تو نہیں جانتا کہ جو شخص دربار سلطانی میں بد تہذیبی کا مرتکب ہوتا ہے وہ ذلت و نقصان اٹھاتا ہے‘ قرط بے نے نہایت آزادنہ اور بے باکانہ لہجہ میں جواب دیا کہ وہ دن اللہ نہ لائے کہ میں تیرے نوکروں اور ہوا خواہوں میں شامل ہوں‘ یہ سنتے ہی سلطان سلیم کا طیش و غضب بھڑک اٹھا اور اس نے جلادوں کو آواز دی‘ قرط بے نے کہا کہ تو تنہا میرے سر کو کٹوا کر کیا کرے گا جب کہ مجھ جیسے اور بھی ہزاروں بہادر ابھی تیرے سر کی تلاش و فکر میں موجود ہیں‘ اور طومان بے بھی زندہ اور تجھ سے بدلہ لینے کی کوشش میں مصروف ہے‘ جلاد آئے اور انہوں نے تلوار نکال کر قرط بے کی طرف اس کا سر اڑا نے کے لیے حملہ کیا تو قرط بے نے خیری بے کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ لے اب میرے سر کو کچل کر اپنی جوروکی گود میں رکھ دے‘ یہ الفاظ اس کی زبان سے نکل رہے تھے کہ تلوار نے اس بہادر کے سر کو جسم سے جدا کر دیا۔ طومان بے نے قاہرہ کے دوبارہ مفتوح ہونے پر قاہرہ سے نکل کر عربی قبائل کو بھرتی کرنا شروع کیا اور ایک معقول جمعیت فراہم کر کے سلیم کی فوج پر حملے شروع کئے‘ سلیم نے فوج کے دستے اس کے مقابلہ پر روانہ کرنے شروع کئے‘ اور طومان بے نے ہمیشہ ان کو شکست دے دے کر بھگا دیا‘ طومان بے کی فوج دو حصوں میں منقسم تھی‘ یعنی کچھ تو بقیۃ السیف مملوکی اس کے پاس آ گئے تھے اور کچھ عرب قبائل شامل ہو گئے تھے‘ مملوکیوں اور عربوں کو عثمانیوں یعنی اپنے نئے فاتحوں سے یکساں نفرت تھی اور اسی لیے وہ مل کر عثمانی فوج کے دستوں کو بار بار شکست دے چکے تھے‘