تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سنان پاشا کو چھید کر پار نکل گیا اور بغیر اس کے کہ وہ کوئی خود حرکت کر سکے یا کوئی اس کو بچانے کی کوشش کرے مردہ ہو کر زمین پر گر پڑا‘ اس طرح الان بے اور قرط بے نے بھی دو اور عثمانی سپہ سالاروں کو قتل کیا مگر سلطان سلیم کو کوئی شناخت نہ کر سکا۔ اس طرح تینوں مملوکی سردار تین عثمانی سپہ سالاروں کو سلطان سلیم کے سامنے عین قلب لشکر میں قتل کر کے صاف نکل گئے اور کسی کی جرأت نہ ہوئی کہ ان کو روک سکے‘ اپنے پندار میں وہ سلطان سلیم کو قتل کر کے قصہ پاک کر چکے تھے مگر خوبی قسمت سے سلطان سلیم بچ گیا۔ اور میدان کا رزار بد ستور گرم رہا‘ اس حملہ میں صرف الان بے کے پائوں میں بندوق کی ایک گولی لگی‘ جس سے وہ زخمی ہوا مگر کوئی اس کو گرفتار نہ کر سکا صاف بچ کر نکل گیا۔ سلطان سلیم مملوکیوں کی اس بہادری کو دیکھ کر حیران و ششدر تھا اور اپنے دل میں کہتا تھا کہ اگر آج میرے پاس توپ خانہ اور بندوق سے مسلح دستے نہ ہوتے تو مملوکیوں کے مقابلہ میں لشکر کی کثرت فائدہ نہیں پہنچا سکتی تھی‘ سلطان سلیم نے بڑی ہوشیاری اور مستعدی کے ساتھ برق انداز دستوں اور توپوں کو مصروف کار رکھا‘ مملوکیوں کی یہ حالت تھی کہ ان کا ایک ایک سردار اپنا ماتحت دستہ لے کر حملہ آور ہوتا تھا اور گولوں اور گولیوں کی بارش میں عثمانیوں کے صف اول تک پہنچنے سے پہلے پہلے یہ سب ختم ہو جاتے تھے مگر ان میں سے کوئی شخص پیچھے ہٹنے اور بھاگنے کا نام نہ لیتا تھا‘ یہ لڑائی اس اعتبار سے دنیا کی بے نظیر لڑائی تھی کہ اس میں مملوکیوں نے محض اپنی بہادری کا ثبوت پیش کرنے کے لیے دیدہ و دانستہ اپنے آپ کو توپوں اور بندوقوں کے منہ میں جھونک دیا مگر اس عار کو گوارا نہ کیا کہ بارود کی طاقت بہادروں کی بہادری کو بزدلی سے تبدیل کر سکتی ہے‘ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ پچیس ہزار مملوک رضوانیہ کے میدان میں کھیت رہے اور صرف چند شخص باقی رہے جو باصرار تمام سلطان طومان بے کو اس میدان سے لوٹا کر مقام عضوبیہ کی طرف لے گئے اس لڑائی میں جس قدر مملوک مارے گئے‘ وہ سب کے سب توپ کے گولوں اور بندوق کی گولیوں سے مرے‘ لیکن عثمانیہ لشکر کے جس قدر آدمی کام آئے وہ سب تلواروں اور برچھوں سے مارے گئے‘ کیوں کہ مملوکیوں کے پاس قسم کھانے کو ایک بھی بندوق نہ تھی اور وہ بندوق کو ہاتھ لگانا بھی نامردی کی بات سمجھتے تھے‘ چونکہ سلطان طومان بے میدان رضوانیہ سے مقام عضوبیہ میں چلا گیا تھا اور قاہرہ خالی تھا‘ لہٰذا جنگ رضوانیہ سے ساتویں روز سلطان سلیم نے آگے بڑھ کر قاہرہ پر قبضہ کیا اس عرصہ میں مملوکی سپاہی جو ادھر ادھر ملک میں منتشر تھے‘ آ آ کر عضوبیہ میں طومان بے کے پاس جمع ہوئے اور ایک مختصر سی فوج پھر طومان بے کے ماتحت فراہم ہو گئی۔ یہ سن کر کہ سلطان سلیم نے قاہرہ پر قبضہ کر لیا ہے‘ طومان بے نے اس مختصر سی فوج کو لے کر قاہرہ پر حملہ کیا‘ سلیم احتیاطاً شہر سے باہر اپنے فوجی کیمپ میں مقیم تھا‘ طومان بے نے دوسری طرف سے یکایک شہر میں داخل ہو کر ترکوں کو جو فاتحانہ شہر پر قابض و متصرف تھے قتل کرنا شروع کیا‘ اس دار و گیر میں ایک بھی عثمانی سپاہی جو اس وقت شہر کے اندر تھا زندہ نہ بچا سب کے سب قتل کر دیئے گئے۔ اور طومان بے نے شہر پر دوبارہ قابض ہو کر کوچوں‘ گلیوں اور شہر کے مکانوں کے ذریعہ مورچہ بندی کی‘ شہر قاہرہ کی کوئی فصیل نہ تھی جو اس حالت میں مدد پہنچاتی‘ سلطان سلیم نے اپنی فوج لے کر شہر میں داخل ہونا چاہا‘ تو ہر ایک گلی کوچہ مورچہ بند اور سد