تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہر طرح قابل تعریف شخص تھا‘ جب مصر کا سلطان منتخب ہوا تو مملوکی سرداروں ہی میں سے بعض سرداروں کو یہ انتخاب ناپسند ہوا مگر وہ کچھ نہ کہہ سکے اور دل ہی دل میں کڑہتے رہے اگر طومان بے کو اطمینان کا زمانہ میسر ہوتا تو وہ اپنے اخلاق فاضلہ سے رفتہ رفتہ ان لوگوں کی سوزش قلبی کو فرو کر دیتا‘ لیکن اس کو برسر حکومت ہوتے ہی لڑائیوں کا بندوبست کرنا پڑا ان حسد پیشہ سرداروں میں دو شخص خصوصیت سے قابل تذکرہ ہیں‘ ایک غزالی بے اور دوسرا خیری بے‘ ان دونوں نے طومان بے کو مصر کے بچانے اور عثمانیہ لشکر کو شکست دینے کی کوشش میں مصروف دیکھ کر یہ کوشش درپردہ شروع کر دی کہ طومان بے کو اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل نہ ہو‘ چنانچہ ان غداروں نے سلطان سلیم سے خفیہ سلام و پیام اور خط و کتابت کا سلسلہ شروع کر کے طومان بے کی تمام تیاریوں اور تدبیروں سے سلطانی عثمان کو مطلع کر دیا‘ طومان بے نے سلیم کے توپ خانہ کو بیکار کر دینے کے لیے یہ بہترین تدبیر سوچی تھی‘ کہ جس وقت سلیم کا لشکر کوچ کرتا ہوا قریب پہنچے تو اسی حالت میں اس کے فروکش ہونے سے پہلے دونوں بازئووں کی طرف سے مصری سواروں کے دستے حملہ آور ہوں اور توپ خانہ پر قابض ہو کر دست‘ بدست تلوار و خنجر کی لڑائی شروع کریں ان دونوں غداروں نے سلیم کو طومان بے کے اس ارادہ کی بھی عین وقت پر اطلاع کر دی اور طومان بے کی یہ تدبیر بھی پوری نہ ہونے پائی‘ سلطان سلیم عثمانی کی یہ بڑی خوش قسمتی تھی کہ خود مملوکیوں کے سرداروں میں اس کے ہوا خواہ پیدا ہو گئے۔ ۲۲ جنوری ۱۵۱۷ء مطابق ۹۲۲ھ میں مقام رضوانیہ کے متصل جہاں مصری فوج خیمہ زن تھی دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا‘ چوں کہ سلیم پہلے ہی سے واقف ہو چکا تھا لہٰذا طومان بے کو اپنی سوچی ہوئی تدبیر کے موافق لڑائی کے لیے اچھا موقعہ نہ مل سکا اور اس کو عین توپ خانہ کے مقابل ہو کر لڑنا پڑا‘ لڑائی کے شروع ہوتے ہی خیری بے اور غزالی بے دونوں غدار مملوکی سلطان سلیم کے پاس فوراً چلے آئے‘ توپوں کے گولوں کی بارش اور بندوقوں کی گولیوں کی بوچھاڑ میں مملوکیوں نے اس بے جگری کے ساتھ حملے کئے اور اس طرح حق شجاعت و مرادنگی ادا کیا کہ اس کے بعد شاید کسی کو اس طرح بہادری کے ساتھ جان قربان کرنے کا موقعہ نہیں ملا ہو گا‘ طومان بے نے اپنے مملوک شہ سواروں کی ایک جماعت لے کر جو خود و زرہ و جوشن وغیرہ میں سر سے پائوں تک غرق فولاد تھی ایک حملہ عثمانیوں کے قلب لشکر پر کیا‘ سلطان طومان بے کے ہمراہ دو اور بہادر مملوکی سردار الان بے اور قرط بے بھی تھے ان دونوں سرداروں نے قسم کھائی کہ ہم سلطان سلیم کو یا تو زندہ گرفتار کر لیں گے‘ ورنہ اس کو قتل کر دیں گے۔ مملوکیوں کی اس مختصر جماعت کا یہ حملہ ایک زلزلہ تھا‘ جس نے تمام عثمانی لشکر میں تزلزل برپا کر دیا‘ مملوکیوں کا سلطان طومان بے اور اس کے مٹھی بھر ہمراہی گویا شیر تھے جو بکریوں کے گلے میں داخل ہو گئے تھے ان لوگوں کو قلب لشکر تک پہنچنے سے عثمانیہ لشکر کی کوئی طاقت نہ روک سکی‘ کائی سی پھاڑتے اور کشتوں کے پشتے لگاتے ہوئے یہ لوگ ٹھیک اسی مقام تک پہنچ گئے۔ جہاں سلیم کھڑا ہوا اپنی فوج کے مختلف دستوں کو احکام بھیج رہا تھا‘ مگر حسن اتفاق سے طومان بے نے سنان پاشا کو جو سلیم کے قریب کھڑا تھا سلیم سمجھا اور اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے آتے ہی سنان پاشا کو سلیم کہہ کر للکارا اور ایک ایسا جچا تلا نیزہ کا وار کیا کہ نیزہ