تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غلاموں سے معرکہ آراہوں تو شکست کھا کر بھاگیں۔ بہرحال مصر کی مملوکی سلطنت مصر و شام و حجاز پر حکمران اور قدیم سے سلاطین عثمانیہ کے ساتھ کوئی پر خاش نہیں رکھتی تھی‘ سلطان فاتح کے بعد جب سلطان بایزید ثانی تخت نشین ہوا اور شہزادہ جمشید شکست کھا کر مصر پہنچا تو دربار قاہرہ کے تعلقات دربار قسطنطنیہ کے ساتھ پہلی مرتبہ کشیدہ ہوئے اور جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے جنگ و پیکار تک نوبت پہنچی‘ اس موقعہ پر سلطنت عثمانیہ کو مملوکیوں سے نیچا دیکھنا اور نقصان اٹھانا پڑا تھا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اب سلطان سلیم کے تخت نشین ہونے کے بعد مثل دوسری سلطنتوں کے مملوکی بھی اس نئے سلطان کی حرکات کو بغور دیکھ رہے تھے‘ انھوں نے جب اسمٰعیل صفوی کی شکست اور سلیم کی فتوحات کا حال سنا تو اب ان کو یہ فکر ہوئی کہ سلیم اب ہم سے چھیڑ چھاڑ کئے بغیر نہ رہے گا اس لئے کہ دیاربکر وغیرہ صوبے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو چکے تھے‘ انھوں نے مملوکیوں کے مقبوضہ ملک یعنی شام کو سلطنت عثمانیہ سے اور بھی زیادہ قریب کر دیا تھا ان کو یہ بھی محسوس ہو چکا تھا کہ سلطان سلیم ضرور ان شہروں اور قلعوں کے واپس لینے کی کوشش کرے گا جو مملوکیوں نے سلطان بایزید ثانی سے چھین لئے تھے‘ ادھر شاہ اسمٰعیل صفوی نے سلطان سلیم سے شکست فاش کھانے کے بعد اپنے ایلچی مصر کے سلطان قانصوہ غازی کے پاس بھیجے اورعہدنامہ صلح قائم کرنا چاہا مملوکی امیر کو اسمٰعیل صفوی کے سفیر کی مدارات کرنے اور معاہدہ صلح کے قائم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوا‘ اسمٰعیل صفوی کے سفیر نے قانصورہ غازی کو اور بھی زیادہ ان خطرات کی طرف توجہ دلائی جو سلطان سلیم سے سلطنت مصر کے لئے پیدا ہو سکتے تھے‘ ان مذکورہ و جوہات سے یا کسی اور سبب سے یہ ضرور ہوا کہ امیر کبیر قانصوہ غازی سلطان مصر خود شہر حلب میں آ کر مقیم ہوا اور اس نے سرحد شام پر مناسب فوجیں فراہم و متعین کر دیں‘ جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ سلطان سلیم ملک شام پر حملہ نہ کرے اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ موقعہ پا کر مملوکی سلطنت خود ایشیائے کوچک کے مشرقی حصہ پر حملہ آور ہو‘ بہرحال سلطان سلیم کا غالباً یہ خیال نہ تھا کہ وہ مملوکی سلطنت پر حملہ کرے‘ کیوں کہ مملوکی بہت پابند شرع اور سلطان سلیم کے ہم عقیدہ و ہم مذہب تھے‘ مگر اسمٰعیل صفوی کی خفیہ تدابیر نے اس جگہ بخوبی کامیابی حاصل کی اور مملوکی بے چارے شاہ ایران کی چالاکی کے فریب میں آ کر ناحق مارے گئے۔ سلطان سلیم ایران کی طرف سے واپس آ کر قسطنطنیہ میں مقیم اور اندرونی انتظامات میں مصروف تھا اب اس کے لئے سوائے مغربی حدود اور عیسائی سلطنتوں کے اور کوئی چیز جاذب توجہ نہ تھی اس کے باپ دادا کئی پشتوں سے یورپ کے عیسائیوں سے دست و گریبان چلے آتے تھے‘ سلیم کے لئے سوائے یورپی ممالک کے اب کوئی علاقہ ایسا نہ تھا کہ وہ اس کا لالچ کرتا‘ لیکن ۹۲۲ھ میں اس کے پاس یکایک اس کے گورنر سنان پاشا کی ایک تحریر پہنچی (سنان پاشا ایشیائے کوچک کے مشرقی حصہ کا حاکم و سپہ سالار تھا) کہ میں آپ کے حکم کی تعمیل میں وادی فرات کی جانب فوج لے جانے سے اس لئے قاصر ہوں کہ سرحد شام پر مملوکی فوجیں موجود ہیں اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ میرے یہاں سے غیر حاضر ہوتے ہی وہ شاید ایشیائے کوچک کے مشرقی حصہ پر حملہ آور ہو جائیں‘ اس تحریر کو پڑھ کر سلطان سلیم نے قسطنطنیہ میں اپنے تمام سرداروں‘ عالموں اور وزیروں کو جمع کر کے ایک مجلس مشورت منعقد کی اور ان سے پوچھا کہ ہم کو