تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں چودہ عثمانی اور چودہ ایرانی صاحب علم سپہ سالار مارے گئے‘ سلیم کو اپنے ان سرداروں کے مارے جانے کا سخت ملال ہوا اور اس نے بڑی عزت کے ساتھ ان کی تجہیز و تکفین سے فراغت پا کر تبریز کا ارادہ کیا‘ یہ لڑائی مقام خالدران میں ۲۳ اگست ۱۵۱۴ء مطابق ۲۰ ماہ رجب ۹۲۰ھ کو ہوئی‘ اس لڑائی سے تیرہ دن کے بعد سلطان سلیم تبریز دارالسلطنت ایران میں داخل ہوا‘ اسمٰعیل صفوی خالدران سے بھاگ کر تبریز میں پہنچا تھا۔ لیکن جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ سلطان سلیم تبریز کی طرف آ رہا ہے تو وہ تبریز سے خراسان کی طرف بھاگ گیا اور اپنی سلطنت کے مشرقی حصہ پر اپنا قبضہ قائم رکھا‘ سلیم نے تبریز میں آٹھ روز قیام کیا‘ اس کے بعد قرہ باغ کی طرف بڑھا‘ جب سلطان تبریز میں مقیم تھا تو اس کے پاس مسندا بدیع الزماں جو تیموری نسل کا شہزادہ تھا ملنے آیا‘ سلطان نے اس کی بہت عزت و تکریم کی‘ سلطان سلیم کا ارادہ تھا کہ قرہ باغ سے آگے بڑھ کر آذر بائیجان ہی کے میدانوں میں موسم سرما بسر کرے اور موسم بہار کے شروع ہونے پر مشرقی ممالک کی فتوحات کے لئے بڑھے لیکن اس کی فوج نے اب پھر سرکشی پر آمادگی ظاہر کی اور سلطان کو مجبور کیا کہ وطن کی طرف واپس ہو‘ یہ واپسی سلطان سلیم کے لئے ایسی ہی تھی‘ جیسی کہ سکندر کی واپسی دریائے ستلج کے کنارے سے مجبوراً ہوئی تھی‘ سکندر کو بھی اس کی فوج ہی نے واپس ہونے پر مجبور کر دیا تھا‘ سلطان سلیم قرہ باغ سے واپس تو ہوا مگر وہ سیدھا قسطنطنیہ نہیں چلا گیا‘ بلکہ اس نے واپس ہو کر ایشیائے کوچک کے شہر اماسیہ میں مقام کیا اور یہیں موسم سرما بسر کر کے موسم بہار کے شروع ہونے پر پھر فوج کشی کر کے آرمینیا و جارجیہ اور کوہ قاف کا علاقہ فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کیا‘ آذر بائیجان کا صوبہ پہلے سے اس کے قبضہ میں آ چکا تھا‘ اب اس کے بعد سلطان کا ارادہ تھا کہ کردستان اور عراق یعنی دوآبہ دجلہ و فرات کو بھی فتح کر کے اپنی حکومت میں شامل کرے‘ جس پر اب تک اسمٰعیل صفوی کا اقتدار باقی تھا‘ لیکن سلطان کے پاس قسطنطنیہ سے خبر پہنچی کہ وہاں کی فوج سرکشی پر آمادہ ہے اور قسطنطنیہ کے وائسرائے کے ساتھ گستاخی سے پیش آئی ہے اس لئے اس کو مجبوراً اپنے دارالسلطنت قسطنطنیہ کی طرف متوجہ ہونا پڑا لیکن اس طرف جنگی کارروائیوں اور فتوحات کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے اس نے تجربہ کار سردار مامور کئے جنہوں نے چند روز ہی کے بعد کردستان عراق اور ساحل خلیج فارس تک کے تمام صوبے فتح کر کے سلطنت عثمانیہ میں شامل کر دئیے۔ اور اسمٰعیل صفوی کی قریباً آدھی سلطنت‘ سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو گئی‘ اسمٰعیل صفوی نے باربار پائوں مارے‘ لیکن عثمانیہ سرداروں سے ہمیشہ شکست کھائی‘ سلطان سلیم فتح خالدران کے بعد جب تبریز میں داخل ہوا تو اس نے تبریز سے جو سب سے بڑا فائدہ حاصل کیا وہاں کے ایک ہزار معماروں اور کاری گروں کو بیش قرار روزینے اور جاگیریں دے کر قسطنطنیہ میں آباد ہونے کے لئے بھیج دیا‘ اس زمانہ میں تبریز کے معمار ساری دنیا میں مشہور اور اپنے فن میں بے نظیر سمجھے جاتے تھے‘ سلطان نے ان لوگوں کو قسطنطنیہ بھیج کر قسطنطنیہ کی ایک بڑی اور اہم ضرورت کو پورا کر دیا‘ شاہ اسمٰعیل نے اس شکست کے بعد کئی مرتبہ سلطان سلیم کے پاس صلح کی درخواستیں بھیجیں اور بہت کوشش کی کہ کسی طرح سلطان سلیم کی طرف سے مطمئن ہو‘ لیکن سلطان کو اسمٰعیل صفوی سے ایسی نفرت تھی کہ اس نے اس طرف مطلق التفات نہ کیا اور حالت جنگ کو اس کے ساتھ قائم رکھنا ہی مناسب سمجھا‘ اگر اس کے بعد