تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تنگ کریں‘ ادھر سلطان سلیم نے ایرانی فوج کو سامنے مستعد دیکھتے ہی ایشیائے کوچک کی تمام فوج اپنے سپہ سالار سنان پاشا کے سپرد کی اور پورپی علاقے کی فوج حسین پاشا کو دی سنان پاشا کو میمنہ پر اور حسین پاشا کو میسرہ پر رکھا خود اپنے جاں نثار دستے کو لے کر قلب میں قائم ہوا اور آگے جاگیرداروں اور رضا کاروں کے غول کو بطور ہر اول آگے بڑھایا‘ توپ خانہ ایک مناسب موقعہ پر نصب کر دیا گیا‘اسماعیل صفوی کو چونکہ توپ خانہ کا حال معلوم تھا اور وہ جانتا تھا کہ لڑائی شروع ہونے کے بعد توپوں کا رخ جلد نہیں بدلا جا سکے گا لہٰذا اس نے ترکوں کی توپوں کو بیکار کرنے کے لئے ہی اپنے اسی ہزار سواروں سے وہ کام لینا چاہا تھا جس کا اوپر ذکر ہوا۔ اسماعیل صفوی کی یہ تدبیر جنگ بڑی علاقلانہ اور قابل تعریف تھی۔ چنانچہ طرفین سے فوجیں بڑھیں اور معرکہ کار زار کے گرم ہوتے ہی اسماعیل صفوی نے اپنے چالیس ہزار سوار لے کر عثمانیہ لشکر کے میمنہ کی سمت کتراتے اور گھومتے ہوئے حملہ کیا دوسری طرف ابو علی نے اپنے چالیس ہزار سواروں سے ترکی لشکر کے میسرہ کا ارادہ کیا‘ لڑائی کے شروع ہوتے ہی عثمانیہ لشکر سے تکبیر کی آوازیں بلند تھیں اور ایرانی لشکر سے شاہ شاہ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ یعنی ایرانیوں کا نعرہ جنگ اپنے بادشاہ اسمٰعیل صفوی کا نام لینا تھا اور عثمانی لشکر کا تعرہ جنگ اللہ اکبر کے سوا اور کچھ نہ تھا‘ دونوں لشکروں کی ان آوازوں نے صاف طور پر بتا دیا تھا کہ ان میں کون موحد ہے اور کون مشرک۔ بہرحال اسمٰعیل صفوی توپوں کی زد سے صاف بچ کر اپنے ارادہ میں کامیاب ہوا یعنی اس نے حسین پاشا کی فوج کے عقب سے پہنچ کر سخت حملہ کیا اور یورپی دستوں کے اکثر سردار اور سپاہی اس معرکۂ عظیم میں مارے گئے‘ دوسری طرف ابو علی نے سنان پاشا کی فوج پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی لیکن ابو علی اپنے منصوبہ میں پورے طور پر کامیاب نہ ہو سکا بلکہ اس کی فوج کا ایک حصہ توپ خانہ کی زد میں آ گیا اور ابو علی مارا گیا‘ سنان پاشا نے بآسانی ابو علی کی فوج کو مغلوب کر لیا۔ لیکن حسین پاشا کی حالت بہت نازک ہو گئی‘ کیوں کہ اس طرف ایرانی بہت چیرہ دستی دکھا رہے تھے‘ سلطان سلیم بڑی احتیاط کے ساتھ میدان جنگ کا نگراں تھا اس نے اس بات کی کوشش نہیں کی کہ وہ سلطان بایزید یلدرم کی طرح اپنے سپہ سالاری کے منصب کو فراموش کر کے ایک شمشیر زن سپاہی کی حالت میں تبدیل ہو جائے‘ جب سلطان سلیم کو یہ یقین ہو گیا کہ سنان پاشا کو کسی امداد کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے حریف کو مغلوب کر چکا ہے تو وہ اپنے رکابی دستہ کو لے کر فوراً حسین پاشا کی مدد کو پہنچا‘ اور ایک ایسا زبردست اور رستمانہ حملہ کیا کہ ایرانیوں کے پائوں اکھڑ گئے‘ اسمٰعیل صفوی نے فرار کی عار گوارا کی۔ اسمٰعیل صفوی کو عثمانی سپاہی گرفتار ہی کر چکے تھے کہ اسمٰعیل صفوی کے ایک ہمراہی مرزا سلطان علی نے کہا کہ میں شاہ اسمٰعیل صفوی ہوں۔ عثمانی سپاہی اس کی طرف متوجہ ہو گئے اور اسمٰعیل صفوی کو بھاگ کر جان بچانے کا موقعہ مل گیا‘ تمام میدان ایرانیوں سے خالی ہو گیا اور سلطان سلیم کو فتح مبین حاصل ہوئی‘ سلطان سلیم نے آگے بڑھ کر اسمٰعیل صفوی کے لشکر گاہ پر قبضہ کیا تو معلوم ہوا کہ اسمٰعیل صفوی اس سرا سیمگی کے ساتھ فرار ہوا ہے کہ اپنا سفری خزانہ اور اپنی پیاری بیوی بھی اپنے خیمہ ہی میں چھوڑ گیا ہے سلطان سلیم نے عورتوں اور بچوں کو قید و حراست میں رکھ کر جنگی قیدیوں کو قتل کر دیا اور میدان جنگ معائنہ کرنے سے معلوم ہوا کہ اس لڑائی