تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گرجستان یعنی کاکیشیا کے ایک عیسائی سردار کی طرف سے بافراط سامان رسد سلطانی فوج کے لیے پہنچا‘ جو سلطان کی خوشنودی مزاج کے لیے بطور مہمان نوازی بھجوایا گیا تھا اب اسماعیل صفوی کا دارالسلطنت تبریز کچھ زیادہ دور نہ رہا تھا‘ سلطان سلیم کوچ و مقام کرتا ہوا وادی خالدران میں پہنچا اور اس وادی کے مغربی جانب کے ایک ٹیلہ پر چڑھا تو سامنے میدان میں اس کو ایرانی فوج نظر آئی‘ جس کو دیکھ کر وہ بہت ہی خوش ہوا اب تک دوران سفر میں سلطان سلیم نظم و نثر کے کئی خطوط اسماعیل صفوی کے نام بھیج چکا تھا جن میں سے ہر ایک خط میں اس نے کوشش کی تھی کہ اسماعیل صفوی کو غیرت دلا کر مقابلہ پر آنے کی ترغیب دے‘ سلطان سلیم‘ شاہ صفوی کے مقابلہ پر نہ آنے سے بہت ہی افسردہ خاطر اور رنجیدہ تھا اور اسی لیے وہ جلد جلد منزلیں طے کرتا ہوا بڑھتا چلا جاتا تھا کہ اسماعیل صفوی کو اس کے دارالسلطنت پر پہنچ کر مقابلہ پر للکارے‘ اسماعیل صفوی اگر اپنے دارالسلطنت کو بھی چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتا تو ممکن تھا کہ اس کا منصوبہ کارگر ثابت ہو جاتا اور سلطان سلیم تبریز سے آگے نہ بڑہتا‘ لیکن وہ سلطان عثمانی کی پیش قدمی کو اس سے زیادہ برداشت نہ کر سکا۔ وادی خالدران تبریز سے بیس کوس کے فاصلہ پر تھی اور اسماعیل صفوی نے مقابلہ کے لیے اسی مقام کو سب سے زیادہ موزوں مقام سمجھا تھا‘ اسماعیل صفوی کی فوج سلطان سلیم کی فوج کے برابر ہی تھی‘ مگر اس فرق کو نظر انداز نہ کرنا چاہیئے کہ سلطان سلیم کی فوج پیہم بڑی بڑی کڑی منزلیں طے کرتی ہوئی پہنچی تھی اور بہت تھکی ہاری ہوئی تھی لیکن اسماعیل صفوی کی فوج خوب تازہ دم اور ہر طرح ہر قسم کے سامان سے آراستہ و پیراستہ تھی اسماعیل صفوی اور اس کی فوج کو کامل یقین تھا کہ ہم سلیم عثمانی اور اس فوج کو ضرور شکست فاش دیں گے اسماعیل صفوی نے مقابلہ کرنے میں جو دیر اور توقف کیا وہ اس کی نہایت زبردست سپاہیانہ چال تھی اور اس کی تجربہ کاری نے عثمانی لشکر کو صعوبات سفر سے کمزور و ستوہ کر کے ایسے مقام پر لا ڈالا تھا جہاں وہ تمام و کمال برباد ہونے کے لیے گویا صفوی لشکر کے موت کے منہ میں پہنچ چکا تھا اس موقع پر پہنچ کر سلطان سلیم کا فرض تھا کہ وہ اپنے لشکر کو کم از کم ایک دن یا چند ہی گھنٹے آرام دینے کی کوشش کرتا اور سستانے کا موقع دیتا‘ لیکن وہ چوں کہ تمام سفر میں اسی بات کی دعائیں مانگتا ہوا آیا تھا‘ کہ کسی طرح اسماعیل صفوی مقابلہ پر آ جائے لہٰذا خالدران کے میدان میں اسماعیل صفوی اور اس کے لشکر کو سامنے دیکھ کر وہ تامل نہیں کر سکتا تھا‘ ادھر اسماعیل صفوی کو اپنے جاسوسوں کے ذریعہ پہلے سے معلوم تھا کہ عثمانی لشکر سامنے سے نمودار ہونے والا ہے لہٰذا وہ پہلے ہی سے حملہ آوری پر مستعد اور اپنے میمنہ و میسرہ کو درست کر چکا تھا اور اس بات پر مستعد تھا کہ عثمانی لشکر کو جو تھکا ہوا آ رہا تھا آرام کرنے کا موقعہ نہ دیا جائے‘ اسماعیل صفوی کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ سلطان سلیم کے ساتھ ایک ہلکا توپ خانہ بھی ہے اس کو سلطانی فوج کی تعداد اور ہر حصہ فوج کی حالت سے بخوبی آگاہی حاصل تھی‘ شاہ صفوی نے اپنے اسی ہزار سواروں کے دو حصے کئے ایک حصہ تو اپنی ماتحتی میں رکھا اور دواسر حصہ اپنے سپہ سالار ابو علی کے سپرد کیا اور یہ قرار دیا کہ عثمانی فوج جس وقت لڑائی شروع کرے تو ایرانی فوج کے سامنے کی صف مصروف جنگ ہو اور یہ دونوں حصے جو چالیس چالیس ہزار سواروں پر مشتمل تھے داہنے بائیں جانب کترا کر اور گھوم کر عثمانی فوج کے عقب میں پہنچ جائیں اور پیچھے سے حملہ کر کے ترکوں کا قافیہ