تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عثمانی نے پہلے ہی سے یہ انتظام کر لیا تھا کہ طرابزون کے بندرگاہ پر قسطنطنیہ اور یورپی صوبوں سے سامان رسد کے جہاز آتے رہیں اور وہاں سے خچروں اور اونٹوں پر لاد کر لشکر سلطانی میں سامان رسد کے پہنچنے کا انتظام رہے‘ اس کام کے لیے اس نے پانچ ہزار سپاہی اور بہت سے اونٹ اور خچر مقرر کر دیئے تھے‘ مگر پھر بھی جس علاقے میں اس کو سفر کرنا پڑ رہا تھا اس علاقے سے کسی چیز کا بھی دستیاب نہ ہونا بے حد موجب تکلیف تھا شاہ اسماعیل صفوی خود بھی فوج لے کر اپنے صوبوں کی اس مکمل بربادی میں مصروف تھا اور پیچھے ہٹتا چلا جاتا تھا‘ سلیم عثمانی کو توقع تھی کہ اسماعیل صفوی اپنے ملک کی سرحد سر سدراہ ہو گا۔ لیکن اس نے یہ تدبیر سوچی تھی کہ سلیم عثمانی خود ہی اتنے بڑے لشکر کو دور تک نہ لا سکے گا اور تنگ آ کر پیچھے ہٹ جائے گا اسماعیل صفوی کا یہ منصوبہ بلا نتیجہ نہ رہا‘ سلطان سلیم کی فوج نے آگے بڑہنے سے انکار کیا اور سرداران لشکر نے سلطان کو رائے دی کہ اسماعیل صفوی چوں کہ مقابلہ پر نہیں آتا اور پیچھے بھاگتا جاتا ہے لہٰذا اب ہم کو بھی واپس ہو جانا چاہیے‘ مگر سلطان سلیم نے اس بات کو ناپسند کیا اور آگے ہی بڑھتا گیا اس حالت میں سلطان نے فوج کے لیے ضروریات مہیا کرنے اور رسد رسانی کے انتظام کی طرف توجہ مبذول رکھنے میں بڑی قابلیت کا اظہار کیا‘ سلطان دیاربکر ہوتا ہوا آذربائیجان کے علاقے میں داخل ہوا‘ ایک منزل پر سلطان کے ایک سپہ سالار ہمدان پاشا کو جو سلطان کا بچپنے کا دوست اور ہم سبق بھی تھا‘ دوسرے سرداروں نے ترغیب دی کہ آپ سلطان کو واپس ہونے پر آمادہ کریں‘ ہمدان پاشا نے سلطان کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ آپ اس حملہ آوری میں اپنی فوج کو ناراض نہ کریں اور موجودہ حالات اسی کے متقاضی ہیں کہ اب واپس چلیں‘ سلطان سلیم نے یہ سنتے ہی ہمدان پاشا کی گردن اڑا دی اور کسی کو چون و چرا کی جرأت نہ ہوئی‘ آخر ایک منزل پر جان نثاری فوج نے جو سب سے زیادہ جری اور باحوصلہ سمجھی جاتی تھی متفقہ آواز بلند کی کہ ہم اب ہرگز آگے قدم نہ بڑھائیں گے اور یہیں سے واپس ہونا چاہتے ہیں‘ سلطان سلیم نے جب دیکھا کہ ساری کی ساری فوج سرکشی پر آمادہ ہے‘ تو وہ اگلے دن صبح کو گھوڑے پر سوار ہو کر جان نثاری فوج کے درمیان آ کر کھڑا ہوا اور تمام فوج کو اپنے گرد جمع کر کے ایک تقریر کی کہ: ’’میں اس لیے یہاں نہیں آیا ہوں کہ ناکام واپس جائوں‘ جو لوگ بہادر ہیں اور اپنی شرافت کی وجہ سے بزدلی و نامردی کے عیب کو اپنے لیے گوارا نہیں کرتے اور تیر و شمشیر کے زخموں سے نہیں ڈرتے وہ یقیناً میرا ساتھ دیں گے‘ لیکن جو لوگ نامرد ہیں اور اپنی جان کو اپنی عزت سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں اور اپنے گھروں کو واپس ہونا چاہتے ہیں اور صعوبات کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے میری طرف سے ان کو اجازت ہے کہ وہ اسی وقت بہادروں اور جواں مردوں کی صفوں سے جدا ہو جائیں اور اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں‘ اگر تم میں سے ایک شخص نے بھی میرا ساتھ نہ دیا اور تم سب کے سب ہی نامردوں میں شامل ہو گئے تو تنہا آگے آگے بڑھوں گا اور بغیر معرکہ قتال و جدال گرم کئے ہوئے ہرگز واپس نہ ہوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر سلطان سلیم نے حکم دیا کہ نامرد لوگ ہمارا ساتھ چھوڑ دیں اور جو بہادر و غیرت مند ہیں وہ اسی وقت کوچ پر آمادہ ہو جائیں‘ چنانچہ فوراً تمام فوج وہاں سے سلطان کے ساتھ چل پڑی اور ایک شخص بھی ایسا نہ نکلا جو وہاں سے واپس ہونے کی جرأت کرتا سلطان کی اس ہمت مردانہ کی برکت تھی کہ اگلی منزل پر فوج جا کر مقیم ہوئی تو