تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس مذہب کے قبول کرنے کا مادہ موجود تھا اس لئے اس کو بڑی کامیابی ہوئی۔ جن راسخ العقیدہ مسلمانوں نے شیعیت سے انکار کیا ان پر مصائب کے پہاڑ توڑ دئیے گئے اور ساتھ ہی یہ اشاعتی کام قلمرو عثمانی میں بھی شروع کر دیا گیا سلطان بایزید نے تو کوئی انتظام نہ کیا‘ لیکن سلطان سلیم نے اس طرف فوری توجہ مبذول کر کے اس فتنہ کا استیصال کر دیا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے سلطان سلیم عثمانی نے مذکورہ خط کے ساتھ اپنا ایک ایلچی بھی بھیجا‘ اور اس کو سمجھا دیا کہ اگر شاہ اسماعیل راہ راست پر آ جائے اور ہماری باتوں کو مان لے تو اس سے کہا جائے کہ وہ شہزادہ مراد کو جو اس کے پاس پناہ گزیں ہے ہمارے پاس بھیج دے‘ اسماعیل صفوی نے اس خط کو پڑھ کر سلطان سلیم کے ایلچی کو فوراً شہزادہ مراد کے سپرد کر دیا اور اس نے اسمٰعیل صفوی کے اشارہ کے موافق اس ایلچی کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا‘ یہ حرکت اسماعیل صفوی کی بہت ظالمانہ اور مراسم شاہانہ کے خلاف تھی پھر اسماعیل نے سلطان سلیم کے خط کا جواب لکھ کر اس کے پاس روانہ کیا اس خط میں اسماعیل صفوی نے لکھا کہ: ’’میں نہیں سمجھ سکا کہ آپ اس قدر ناخوش اور برافروختہ کیوں ہیں‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افیم کے نشہ میں یہ خط لکھا گیا ہے آپ کو اگر لڑنا ہی منظور ہے تو میں بھی ہر طرح تیار ہوں جو کچھ اللہ کی مرضی ہے اس کا بہت جلد ظہور ہو جائے گا اور جب میدان میں مقابلہ ہو گا تب آپ کو قدر عافیت معلوم ہو گی‘‘۔ اس خط کے ساتھ اسماعیل صفوی نے افیون کا ایک ڈبہ بطور تحفہ سلطان سلیم کے پاس بھیجا‘ جس سے مقصود تھا کہ تم افیون کھانے کے عادی ہو اور اسی کے نشہ میں ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو‘ لہٰذا افیون کے تحفہ کو بہت پسند کرو گے‘ سلطان سلیم اس خط اور افیون کو دیکھ کر بہت غیظ و غضب میں آیا اور اپنے ایلچی کے قصاص میں اس نے اسماعیل صفوی کے ایلچی کو قتل کرا دیا اور اپنے لشکر کا خوب بندوبست کر کے تبریز کی جانب (جو اسماعیل صفوی کا دارالسلطنت تھا) روانہ ہوا‘ شہر سیواس میں پہنچ کر اپنی فوج کی موجودات لی تو اسی ہزار سوار اور چالیس ہزار پیدل تھے اس نے سیواس سے قیصریہ تک چالیس ہزار پیدلوں کو تقسیم کر کے ہر منزل پر ایک مناسب تعداد متعین کر دی اور حکم دیا کہ جب سلطانی لشکر قیصریہ سے ایک منزل آگے بڑھے تو ہر منزل کی متعینہ فوج ایک ایک منزل آگے بڑھ جائے اور سب سے پچھلا دستہ جو سیواس میں متعین ہے وہ سیواس کو چھوڑ کر اگلی منزل میں پہنچ جائے‘ یہ انتظام اس نے اس لیے کیا تھا کہ سامان رسد کے پہنچنے میں آسانی رہے لیکن جوں ہی سلطان سلیم اپنی حدود سلطنت سے نکل کر ایرانی قلمرو میں داخل ہوا اس نے دیکھا کہ اسماعیل صفوی کے حکم سے ایرانیوں نے تمام علاقوں کو ویران اور کھیتوں کو برباد کر دیا تھا‘ تاکہ عثمانی لشکر کو گھاس کا ایک تنکا اور غلہ کا ایک دانہ نہ مل سکے سبز درختوں اور ہر قسم کے نباتات کو جلا کر خاک سیاہ بنا دینے کے کام پر اس نے بہت بڑی فوج متعین کر دی تھی اس فوج کا یہی کام تھا کہ عثمانی لشکر کے آگے آگے ملک کو برباد اور خاک سیاہ بناتی جائے‘ پہلے سے ان علاقوں میں اشتہار دے دیا گیا تھا کہ تمام باشندے اپنے اپنے سامان کو جو اٹھا سکتے ہیں اٹھا کر اور باقی کو آگ لگا کر اندرون ملک کی طرف چلے آئیں ورنہ شاہی فوج ان کو زبردستی جلا وطن کر دے گی اور ان کی تمام املاک و سامان کو جلا ڈالے گی‘ اسماعیل صفوی کے اس انتظام و اہتمام کا یہ اثر ہوا کہ مملکت ایران کی حدود میں داخل ہوتے ہی سلطان سلیم عثمانی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اگرچہ سلطان سلیم