تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے اپنے پرانے عقیدے کو ترک کر کے شیعہ مذہب اختیار کر چکے ہیں اور ساتھ ہی اسماعیل صفوی کو اپنا پیشوا مانتے اور اس پر نثار ہونے کے لیے تیار ہیں یہ فہرست بہت جلد تیار ہو کر سلطان کی خدمت میں پیش ہوئی تو معلوم ہوا کہ ایشیائے کوچک میں ستر ہزار آدمی ایسے موجود ہیں جو اسمٰعیل صفوی کے حملہ آور ہوتے ہی بلا توقف مسلح ہو کر بغاوت پر آمادہ اور سلطان عثمانی کے خلاف شمشیر زنی میں مطلق کوتاہی نہ کریں گے‘ جب اس عظیم الشان سازش اور اس کے خطرناک نتائج پر سلیم نے نظر ڈالی تو اس کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور مطلق اظہار بے تابی نہ کیا بلکہ نہایت احتیاط اور انتظام کے ساتھ تمام ان مرکزی مقاموں پر جہاں جہاں ان غدار اور باغی لوگوں کی کثرت تھی باغیوں کی تعداد کے مساوی فوج بھیج دی اور ہر جگہ کے فوج کے افسروں کو وہاں کے غداروں کی فہرست دے کر حکم دیا کہ فلاں تاریخ کو ہر ایک باغی کے لئے ایک ایک سپاہی نامزد کر دو اور سمجھا دو کہ تاریخ و وقت مقررہ پر اس شخص کو قتل کر دینا تمہارا فرض ہے ساتھ ہی اس بات کی بھی سخت تاکید کی کہ قبل از وقت یہ راز افشا نہ ہونے پائے‘ چنانچہ اس حکم کی بڑی احتیاط کے ساتھ تعمیل ہوئی اور ایک ہی تاریخ اور ایک ہی وقت مقررہ پر ایشیائے کوچک کے طول و عرض میں چالیس پچاس ہزار کے قریب باغی اس طرح قتل ہوئے کہ کسی عثمانی سپاہی کو کوئی زخم نہیں پہنچا ان لوگوں کا بیک وقت اس طرح ہلاک ہونا شیعوں کے لئے بڑا ہیبت ناک واقعہ تھا‘ جو لوگ باقی رہ گئے ہوں گے ان کی ہمتیں پست ہو گئیں اور وہ مرعوب و خائف ہو کر اپنے فاسد خیالات سے خود بخود تائب ہو گئے‘ اسمٰعیل صفوی کی سازش کو اس طرح ناکام بنانا سلطان سلیم کی بڑی عظیم الشان فتح تھی‘ لیکن اسمٰعیل صفوی اس خبر کو سن کر بہت ہی پیچ و تاب میں آیا‘ مگر صاف لفظوں میں کوئی شکایت نہ کر سکا‘ آخر وہ ضبط نہ کر سکا اور اس نے فوجوں کی فراہمی اور سامان جنگ کی درستی کا حکم عام جاری کر کے اعلان کیا کہ ہم ایشیائے کوچک پر اس لئے حملہ آور ہونے والے ہیں کہ شہزادہ مراد بن احمد عثمانی کو اس کا آبائی تخت دلائیں اور سلیم عثمانی کو گرفتار کر کے معزول کر دیں یہ خبر سن کر سلیم عثمانی نے دربار عام میں اپنے اراکین سلطنت اور فوجی سرداروں کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم ملک ایران پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں اس زمانے میں اسمٰعیل صفوی کی طاقت و ہیبت کے افسانے اس قدر مشہور ہو چکے تھے اور خود ترکی فوج بھی اس سے شکست پائی ہوئی تھی‘ نیز ترکستان کے بادشاہ شیبانی خاں کو اسمٰعیل صفوی قتل کر چکا تھا لہٰذا حاضرین دربار اسماعیل صفوی پر چڑھائی کرنے کو بہت ہی خطرناک اقدام تصور کرتے تھے چنانچہ سب کے سب خاموش اور دم بخود رہے۔ سلطان نے تین مرتبہ یہی لفظ کہے اور ہر مرتبہ خاموشی کے سوا کوئی لفظ کسی سے نہ سنا‘ آخر اس خاموشی کو عبداللہ نامی ایک دربان جو سامنے اپنی خدمت پر مامور و موجود تھا اس طرح قطع کیا کہ وہ آگے بڑھا اور سلطان کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر مئودبانہ عرض کیا کہ میں اور میرے ساتھی سلطانی جھنڈے کے نیچے ایران کے بادشاہ سے لڑیں گے اور خوب داد شجاعت دے کر ایرانیوں کو شکست فاش دیں گے یا میدان میں مارے جائیں گے‘ سلطان عبداللہ کے اس کلام کو سن کر بہت خوش ہوا اور اسی وقت اس کو دربانی کے عہدے سے ترقی دے کر ایک ضلع کا کلکٹر بنا دیا‘ اس کے بعد دوسرے سرداروں کو بھی جرأت ہوئی اور انہوں نے اپنی آمادگی کا اظہار کیا‘ شاہ اسماعیل صفوی اور سلطان سلیم عثمانی کی لڑائی کا حال