تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابوسعید مرزا تیموری کو گرفتار کر کے قتل کر چکا تھا‘ اب اس کا ارادہ تھا کہ ایشیائے کوچک میں سلطان فاتح کے خلاف مشکلات پیدا کرے اور فتح طرابزون کا بدلہ سلطنت عثمانیہ سے لے‘ چنانچہ اس کی پشت گرمی سے ایشیائے کوچک میں کئی مرتبہ بغاوتیں برپا ہوئیں اور ہر مرتبہ سلطان فاتح کے سپہ سالاروں نے ان کو فرو کر دیا سلطان فاتح ایران کی مسلمان سلطنت سے لڑنا نہیں چاہتا تھا‘ اس کی تمام تر توجہ اس طرف منعطف تھی کہ سلطان بایزید یلدرم کی اس خواہش کو پورا کرے جو اس نے اٹلی کے شہر روما کو فتح کرنے کی نسبت ظاہر کی تھی‘ اسی لیے اس نے نہایت پائدار اور مستحکم طریقہ سے اپنی حدود سلطنت کو اٹلی کی طرف بڑھایا اور دوسری سمتوں سے بھی غافل نہیں رہا اس نے حادثہ بلگریڈ کے بعد دریائے ڈینوب کے شمالی صوبوں بلگریڈ تک اپنا قبضہ و تسلط مضبوطی سے جما لیا اور بلگریڈ کی فتح کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی کر کے جزائر یونان اور وینس وغیرہ کے علاقوں کو فتح کیا‘ ایشیائے کوچک اور ایران کی طرف سلطان فاتح کی توجہ منعطف ہونے والی نہ تھی‘ مگر قدرتی طور پر ایک سامان پیدا ہوا اور ۸۷۹ھ میں سلطان نے اپنے وزیر اعظم احمد قیدوق کو فتح کریمیا کے لیے بحر اسود کی جانب روانہ کیا جزیرہ نما کریمیا عرصہ دراز سے چنگیزی نسل کے خواتین کی حکومت میں تھا‘ کچھ دنوں سے جینوا والوں نے کریمیا کے جنوبی ساحل پر بندرگاہ یافہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور اپنے جنگی جہازوں کی مدد سے یافہ پر اپنا مستقل قبضہ جما کر خان کریمیا کے لیے باعث تکلیف ہو گئے خان کریمیا نے مجبور ہو کر سلطان فاتح کو امداد کے لیے لکھا کہ جنیوا والوں کو یافہ سے بے دخل کر دیجئے‘ اور مجھ کو اپنی سرپرستی میں لے لیجئے۔ سلطان نے خان کریمیا کی اس درخواست پر ہمدردانہ توجہ مبذول کی اور احمد قیدوق کو زبردست جنگی بیڑہ کے ساتھ اس طرف روانہ کیا‘ احمد قیدوق اپنے ساتھ چالیس ہزار فوج لے گیا‘ اور چار دن کے محاصرہ کے بعد یافہ کو فتح کر کے چالیس ہزار جنیوا والوں کو جو وہاں موجود تھے گرفتار کر لیا‘ یافہ سے بے شمار مال غنیمت اور جینوا والوں کے جنگی جہاز احمد قیدوق کے ہاتھ آئے‘ خان کریمیا نے سلطان عثمانی کی اطاعت قبول کی اور اسی تاریخ سے تین سو سال تک خوانین کریمیا سلطان قسطنطنیہ کے باوفا اور فرماں بردار رہے۔ یافہ کا بندرگاہ دوسرا قسطنطنیہ سمجھا جاتا تھا‘ اس کا قبضہ میں آ جانا سلطنت عثمانیہ کے مشرقی صوبوں اور بحر اسود میں اپنی سیادت قائم رکھنے کے لیے نہایت مفید اور ضروری تھا‘ اس موقعہ پر شاید یہ بیان کر دینا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا‘ کہ اسی سال یعنی ۸۷۹ھ میں روس کے اندر زار کا وہ خاندان برسر حکومت ہوا‘ جس نے ہمارے زمانہ کی مشہور جنگ عظیم تک روس میں زور و شور کے ساتھ حکومت کی اور آخری زار دوران جنگ میں معزول ہو کر مقتول ہوا اور اس کے بعد روس میں سویٹ حکومت یعنی جمہوری سلطنت قائم ہوئی‘ کریمیا اور یافہ کا حکومت عثمانیہ میں شامل ہو جانا ایران کے بادشاہ حسن طویل کو بہت ہی ناگوار گذرا اور اب اس نے علانیہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ ۸۸۰ھ میں سلطان فاتح نے اپنے بیٹے بایزید کو ایشیائے کوچک کی فوجوں کا سپہ سالار بنا کر بھیج دیا کہ اس طرف کے معاملات کا نگران رہے‘ اور خود یورپی علاقے کی طرف مصروف رہا‘ البانیا اور ہر زیگوینا پر سلطان کا قبضہ پہلے ہی ہو چکا تھا‘ اب سلطان نے جنیوا اور وینس کے قبضے سے بحر روم کے جزیروں کو یکے بعد دیگرے