تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فتح کرنا شروع کیا اس کے بعد ۸۸۲ھ میں سلطان فاتح کا سپہ سالار عمر پاشا اپنی فتح مند فوج لیے ہوئے وینس کے دارالسلطنت تک پہنچ گیا اور وہاں کی پارلیمنٹ نے ترکی فوجوں کو اپنے شہر کی دیواروں کے نیچے دیکھ کر نہایت الحاح و عاجزی کے ساتھ صلح کی درخواست کی اور وعدہ کیا کہ سلطان کو جب ضرورت ہو گی تو ہم سو جہازوں کے بیڑے سے سلطانی فوج کی مدد کریں گے‘ چنانچہ عمر پاشا اپنے حسب منشاء شرائط پر صلح کر کے سالماً غانماً وینس سے واپس آیا۔ ۷۱۱ھ سے جزیرہ روڈس میں صلیبی مجاہدین کے ایک گروہ نے قبضہ کر کے ایک خود مختار حکومت قائم کر لی تھی‘ قریباً ڈیڑھ سو سال سے یہ لوگ اس جزیرہ پر قابض و متصرف اور ارد گرد کے جزیروں اور شام و ایشیائے کوچک کے بندرگاہوں پر بحری ڈاکے ڈالتے رہا کرتے تھے‘ وینس و جینوا والوں نے بھی ان کو کبھی نہیں چھیڑا تھا‘ بلکہ ان کو صلیبی مجاہدین کی یادگار سمجھ کر ان سے اتحاد رکھتے‘ ان کی ڈاکہ زنیوں کو جو عموماً مسلمانوں کے لیے باعث تکلیف ہوتی تھیں‘ بہ نظر استحسان دیکھتے تھے اب جب کہ ساحل شام سے لے کر بحیرہ ایڈریا ملک تک سلطان کی حکومت و سیادت قائم ہو چکی تھی اور تقریباً تمام جزیرے سلطان کے قبضے میں آ چکے تھے تو روڈس کی عیسائی حکومت کا وجود سخت تکلیف دہ ثابت ہوا۔ چنانچہ ۸۸۵ھ میں سلطان نے اس جزیرہ کے فتح کرنے کے لیے ایک بحری جنگی مہم روانہ کی مگر یہ مہم ناکام واپس آئی۔ اس کے بعد سلطان فاتح نے دوسری مہم روانہ کی‘ جس کا سپہ سالار ایک تجربہ کار شخص تھا جزیرہ کے تمام مقامات پر قبضہ کرنے کے بعد اس کے دارالسلطنت کا محاصرہ کیا گیا‘ شہر فتح ہو چکا تھا‘ مگر عین اس وقت جب کہ سلطانی فوج شہر میں داخل ہو کر لوٹ مار میں مصروف ہونا چاہتی تھی‘ سپہ سالار نے حکم جاری کیا کہ کوئی شخص رتی برابر چیز پر تصرف کرنے کا حق دار نہیں ہے‘ اس سے فوج میں بد دلی پیدا ہوئی‘ اور لوگوں نے خدمات کو انجام دینے میں پہلو تہی اختیار کی‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فوج اور اس کے سپہ سالار کی ناچاقی نے وہ صورت اختیار کی کہ جزیرہ کو چھوڑ کر واپس آنا پڑا اور روڈس سلطانی مقبوضات میں شامل ہوتے ہوتے بچ گیا۔ جب روڈس کی جانب مہم روانہ کی گئی تھی‘ تو اس کے ساتھ ہی سلطان نے اپنے وزیر اعظم احمد قیدوق فاتح کریمیا کو ایک جہاز دے کر جہازوں کے ذریعہ اٹلی کے جنوب کی جانب روانہ کیا کہ وہ ملک اٹلی میں داخل ہو کر وہاں فتوحات شروع کرے‘ چنانچہ احمد قیدوق نے ساحل اٹلی پر اتر کر متعدد مقامات کو فتح کر کے اٹلی کے شہر آرٹینٹو کا محاصرہ کر لیا‘ جو اٹلی کا باب الفتح کہلاتا تھا‘ یعنی اس شہر کے فتح ہونے کے بعد ملک اٹلی اور شہر روما کا فتح کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا‘ آخر ۸۸۵ھ مطابق ۱۴۸۰ء بتاریخ ۱۱ اگست احمد قیدوق نے اس شہر کو بزور شمشیر فتح کر لیا‘ اور بیس ہزار کے قریب محصورین کو گرفتار و قتل کیا‘ اس مستحکم مقام کے قبضے میں آ جانے کے بعد شہر روما کا فتح کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ تمام ملک اٹلی میں گھبراہٹ اور سراسیمگی طاری ہو گئی۔ یہاں تک کہ روم کا پوپ اپنا بوریا بستر باندھ کر ملک اٹلی سے بھاگ جانے پر آمادہ ہو گیا‘ شہر آرٹینٹویا اور ٹرانٹو کی فتح اور روڈس کی مہم کے ناکام ہونے کا حال سلطان فاتح کو معلوم ہوا تو اس نے فوراً فوجوں کے فراہم کرنے اور سامان جنگ کی تیاری کا اہتمام کیا‘ بظاہر سلطان بایزید یلدرم کی اس خواہش کے پورا ہونے میں کوئی امراب مانع نہ رہا تھا‘ کہ عثمانی سلطان فاتحانہ شہر روما میں