تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی ذمہ داری اپنے اوپر محسوس کرتے تھے‘ ادھر سلطان فاتح خود ہی تمام لشکر کا سپہ سالار اعظم تھا اس کا زخمی ہونا لشکر پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتا تھا‘ اس مرتبہ عیسائیوں کا حملہ اس قدر سخت تھا‘ کہ مسلمان شہر سے نکل کر بھی اپنے کیمپ میں قائم نہ رہ سکے اور زخمی سلطان کو لے کر قسطنطنیہ کی جانب چل دیئے۔ اس طرح مسلمانوں کی فتح مبدل بہ شکست ہو گئی اور شہر بلگریڈ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ لشکر عثمانیہ کی اس پسپائی یا شکست کا یورپ پر بہت اثر بڑا اور تمام عیسائی ممالک میں خوشی کے جشن منائے گئے۔ لیکن اس واقعہ کے اکیس روز بعد ہنی داس اپنے زخموں سے جاں بر نہ ہو سکا‘ ادھر ہنی داس شاہ ہنگری فوت ہوا ادھر سلطان فاتح نے اپنے زخم کے اچھا ہونے پر غسل صحت کیا‘ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ اسکندر بیگ البانیہ پر قابض تھا اور سلطان فاتح نے تخت نشین ہو کر ان تعلقات و مراسم کی وجہ سے جو ایوان سلطانی میں پرورش پانے کے سبب اسکندر بیگ کے ساتھ تھے‘ سکندر بیگ کی حکومت کو البانیہ پر باقاعدہ تسلیم کر لیا تھا اور کسی قسم کا آزار پہنچانے یا اس کو البانیہ سے بے دخل کرنے کا خیال سلطان فاتح کو نہ تھا مگر حادثہ بلگریڈ کے بعد جہاں دوسرے عیسائی سلاطین کی ہمتیں بڑھ گئیں۔ سکندر بیگ نے بھی سرکشی و بغاوت کے نشانات ظاہر کرنے شروع کئے‘ سلطان فاتح نے اول اول اغماض و چشم پوشی سے کام لیا لیکن جب اس کی حرکات نے خطرناک صورت اختیار کی تو سلطان فاتح نے البانیہ پر فوج کشی کی‘ سکندر بیگ بہت بہادر اور تجربہ کار شخص تھا البانیہ چوں کہ پہاڑی ملک اور سکندر بیگ کا وطن تھا‘ وہاں کی رعایا اس پر جان و دل سے نثار تھی‘ لہٰذا ایک سلسلہ جنگ شروع ہو گیا اور البانیہ کا ملک جلد فتح نہ ہو سکا۔ آخر ۸۶۶ھ میں سکندر بیگ نے خود صلح کی درخواست پیش کی اور آئندہ باوفا رہنے کا اقرار کیا‘ سلطان نے اس کی درخواست منظور کر لی اور البانیا سے اپنی فوجیں ہٹا لیں سکندر نے پھر مخالفت کا اظہار کیا اور سلطان کو دوبارہ فوج لے کر البانیہ جانا پڑا اس مرتبہ سکندر بیگ سلطانی حملہ کی ٹکر نہ سبنھال سکا اس کو البانیا سے حدود ریاست وینس کی طرف پناہ گزین ہونا پڑا جہاں اس کو بڑی آئو بھگت کے ساتھ لیا گیا‘ وہیں سکندر بیگ کا انتقال ہوا اور البانیہ مستقل طور پر سلطانی قبضہ میں آ گیا‘ بلگریڈ کے حملہ کی ناکامی اور سکندر بیگ کے عرصہ دراز تک برسر مقابلہ رہنے کے سبب عیسائیوں کے دلوں سے سلطان فاتح کی وہ ہیبت جو فتح قسطنطنیہ کے بعد پیدا ہو گئی تھی کم ہونے لگی اور ان کی ہمتیں پھر سلطانی مقابلہ کے لیے بڑھ گئیں۔ وینس کی ریاست جس نے چند روز پہلے دب کر صلح کی تھی‘ پھر طاقت کے اظہار پر آمادہ ہونے لگی‘ سلطان نے اس کی سرکوبی کو ضروری سمجھا اور سمندر کے کنارے دور تک وینس کے علاقے کو فتح کر کے بہت سے شہروں کو اپنی حکومت میں شامل کر لیا‘ یہاں تک کہ ریاست وینس نے شہر سقوطری خود سلطان کی نذر کر کے نہایت ذلیل شرطوں پر سلطان سے صلح کی‘ اور بحیرہ ایڈریا ٹک میں سلطانی قیادت قائم ہو گئی۔ ۸۷۸ھ میں سلطان فاتح نے اپنے سپہ سالار احمد قیدوق کو اپنا وزیر اعظم بنایا اور بحیرہ یونان کے جزیروں پر قبضہ کرنے میں مصروف رہا‘ اس فرصت میں ایران کا بادشاہ حسن اوزون یا حسن طویل ترکمان بھی اپنی طاقت کو بڑھا رہا تھا‘ اور ۸۷۳ھ میں سلطان