تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کے جھگڑوں کا فیصلہ ہی کر دینا مناسب خیال کیا‘ چنانچہ سرویا اور بوسنیا کو فتح کر کے سلطنت عثمانیہ کے صوبے قرار دے کر وہاں اپنی طرف سے عامل مقرر کر دیئے‘ چوں کہ ہنی داس بادشاہ ہنگری کے ساتھ معاہدہ صلح کی میعاد ختم ہو چکی تھی اور وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف اور یورپ کی دوسری عیسائی طاقتوں سے امداد طلب کر چکا تھا اس لیے سلطان فاتح نے ضروری سمجھا کہ ہنگری پر خود ہی حملہ آور ہو چنانچہ ۸۶۱ھ مطابق جولائی ۱۴۵۶ء میں عثمانی فوجیں ہنگری کی جانب بڑھیں‘ فتح قسطنطنیہ کے بعد تمام عیسائی سلاطین اور عالم عیسائیت سلطنت عثمانیہ کی نسبت غیظ و غضب کے جذبات سے لبریز تھا ساتھ ہی سب کو یہ خیال تھا کہ اگر سلطان فاتح نے بلگریڈ دارالسلطنت ہنگری کو بھی قسطنطنیہ کی طرح فتح کر لیا تو پھر مغربی یورپ کی خیر نہیں ہے لہٰذا ہر ایک ملک سے عیسائی فوجیں بلگریڈ کے بچانے کے لیے آ آ کر جمع ہو گئیں۔ سلطان فاتح راستے کے شہروں اور قصبوں کو فتح کرتا ہوا بلگریڈ تک اپنی فوج لے گیا‘ اور جاتے ہی شہر کا محاصرہ کر لیا ادھر ہنی داس یاہنی ڈیز بھی بہت تجربہ کار سپہ سالار تھا اس نے بڑی قابلیت کے ساتھ مدافعت شروع کی آخر بہت کشت و خون اور جنگ و جدل کے بعد عثمانی لشکر شہر کے ایک حصہ میں داخل ہو گیا یہ حصہ شہر کا زرین حصہ کہلاتا تھا‘ عیسائی سپہ سالاروں نے یہ حالت دیکھ کر ہمت نہیں ہاری‘ بلکہ شہر کے بالائی حصہ میں اپنی طاقت کو مجتمع کر کے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے‘ شہر میں داخل ہونے والے اسلامی دستہ نے شہر کے اندر خوب جم کر مقابلہ کیا اور چھ گھنٹے کی مسلسل شمشیر زنی کے بعد اپنے آپ کو رات کے وقت شہر کے اندر خطرہ میں دیکھ کر شام ہونے پر پسپا ہوئے‘ اور شہر سے نکل کر اپنے کیمپ میں آ گئے‘ عیسائیوں نے فوراً اس حصہ شہر پر قابض ہو کر خوب مضبوطی کر لی یہ واقعہ ۲۱ جولائی کو ظہور پذیر ہوا اس کے بعد بھی کئی مرتبہ مسلمانوں نے فصیل شہر کو عبور کر کے شہر کے محلوں کو لوٹا‘ لیکن محصورین کی خوش انتظامی اور تجربہ کاری نے شہر کو مکمل طور پر فتح نہ ہونے دیا اور ہر مرتبہ مقبوضہ شہر کو چھوڑ ہی دینا پڑا۔ آخر ۶ اگست کو سلطان فاتح نے بہ ذات خود شہر پر ایک فیصلہ کن حملہ کیا اس روز شہر کے فتح ہونے میں کوئی کسر باقی نہ تھی کہ ایک موقع پر جہاں سلطان خود مصروف شمشیر زنی تھا اور بہت سے عیسائی سرداروں کے سر اپنی شمشیر خار اشگاف سے اڑا چکا تھا اور ہنگری کے باشادہ ہنی ڈیز کو بھی زخمی کر کے اپنے سامنے سے بھگا چکا تھا ایک عیسائی کے ہاتھ سے زخمی ہوا۔ عیسائی کی تلوار نے سلطان فاتح کی ران کو زخمی کیا‘ زخم چوں کہ شدید تھا اور سلطان گھوڑے کی سواری یا پیدل چلنے سے معذور ہو گیا‘ اس کو پالکی میں ڈال کر اس جگہ سے واپس لے آئے‘ سلطان کے اس طرح زخمی ہو کر اور پالکی میں پڑ کر خیمے کی طرف واپس ہونے سے فوج میں بددلی پھیل گئی‘ اور اس کا زخمی ہونا فوج سے پوشیدہ نہ رہ سکا‘ لہٰذا عثمانیہ لشکر جو قدم قدم پر عیسائیوں سے لڑتا اور ان کو پیچھے ہٹاتا ہوا شہر کے اندر بڑھ رہا تھا اب خود بخود پسپا ہونے لگا یہ رنگ دیکھ کر عیسائیوں کی ہمت بڑھ گئی۔ اور انہوں نے پورے جوش و خروش کے ساتھ حملے شروع کر دیئے۔ ان کا بادشاہ ہنی داس بھی اگرچہ سلطان کے ہاتھ سے زخمی ہو کر پہلے فرار ہو چکا تھا‘ لیکن اس کے زخمی ہونے کا علم تمام عسیائی لشکر کو نہیں ہوا تھا‘ نیز یہ کہ ہنی داس کے سوا اور بھی کئی زبردست سپہ سالار جو غیر ملکی فوجوں کے افسر تھے‘ لڑائی