تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھیں اپنے فرار ہونے کا ذریعہ بنایا اور انہی عثمانی کشتیوں میں سوار ہو ہو کر درہ دانیال کے راستے جنوبی یونان اور اٹلی کی جانب بھاگ گئے‘ جنوبی یونان کی فتح سے فارغ ہو کر سلطان نے ریاست وینس کی طرف توجہ کی مگر اس ریاست نے دب کر سلطان سے صلح کا عہد نامہ کر لیا ۶۰۱ھ میں قسطنطنیہ کے شاہی خاندان کا ایک شخص مسمی کوم نینی جو صلیبی مجاہدین کے مذکورہ ہنگامہ میں قسطنطنیہ سے نکال دیا گیا تھا اس نے بحر ۱؎ اسے اردو میں زیادہ تر انقرہ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ۲؎ استنبول جو ترکی کا سب سے بڑا اور بین الاقوامی شہر ہے‘ اس کا پرانا نام قسطنطنیہ ہے۔ اسود کے جنوبی ساحل پر مقام ابزون میں مقیم ہو کر اپنی ایک جداگانہ چھوٹی سی عیسائی ریاست قائم کر لی تھی اس ساحلی ریاست کی طرف کسی نے زیادہ التفات نہیں کیا اور ڈھائی سو سال تک وہ اس طرح قائم رہی کہ جب کسی مسلمان فرماں روا نے اس طرف توجہ کی اس نے فوراً انقیاد و فرماں برداری کی گردن جھکا دی اور جب مسلمانوں کو خانہ جنگی میں مصروف ہونے کا اتفاق ہوا وہ باج و خراج کی قید سے آزاد ہو گئی۔ ایشیائے کوچک پر ترکوں کا قبضہ ہو گیا تھا‘ لیکن طرابزون کو انہوں نے اس کے حال پر قائم رہنے دیا تھا جو ان کے مقبوضہ علاقے کی شمالی و مشرقی سرحد تھی‘ اب فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان فاتح نے ضروری سمجھا کہ ایشیائے کوچک سے اس عیسائی حکومت کو بھی مٹائے‘ کیوں کہ فتح قسطنطنیہ کا واقعہ ایسا نہیں تھا کہ اس کا اثر طرابزون کے عیسائی فرماں روا کے دل پر نہ ہوا ہو جو قیصر قسطنطین کا رشتہ دار اور اس سے کامل ہمدردی رکھتا تھا‘ طرابزون کا یہ عیسائی فرماں روا اس لیے اور بھی زیادہ مخدوش ہو گیا تھا‘ کہ وہ ایران کے ترکمان بادشاہ حسن طویل کا خسر تھا۔ حسن طویل نے تمام ملک ایران اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا تھا اور وہ ایک طاقتور بادشاہ سمجھا جاتا تھا‘ لہٰذا ایران کی ترکمان سلطنت ایشیائے کوچک کی عثمانیہ سلطنت کے لیے موجب خطرہ بن سکتی تھی‘ اور طرابزون کی عیسائی ریاست کو کافی موقع میسر تھا کہ وہ عثمانی سلطان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی تدابیر سوچے۔ سلطان فاتح عیسائی قیصر کی ریشہ دوانیوں سے واقف تھا اس لیے اس نے یہی مناسب سمجھا کہ اس ناسور کو پہلے ہی شگاف دے دیا جائے اور جو کچھ ہونا ہو وہ ابھی ہو جائے چنانچہ اس نے یونان و وینس سے فارغ ہو کر ۸۶۰ھ میں طرابزون پر حملہ کیا اور اس ریاست کو فتح کر کے اپنے قلمرو میں شامل کر لیا‘ طرابزون کی ریاست اگرچہ خود مختار تھی‘ لیکن وہ سلطنت ایران کا ایک حصہ سمجھی جاتی تھی‘ اس لیے ایران کے بادشاہ حسن طویل کو طرابزون کا سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو جانا سخت ناگوار گذرا‘ مگر چوں کہ سلطان فاتح نے طرابزون کی عیسائی ریاست کو اپنی حکومت میں شامل کر کے حسن طویل شاہ ایران کی حدود میں کوئی مداخلت نہیں کی اس لیے اس وقت سلطنت ایران سے کوئی جھگڑا نہ ہوا مگر بعد میں دلوں کی کدورت کا اظہار تیرو شمشیر کے ذریعہ ہوا۔ بہر حال یونان اور ایشیائے کوچک کی طرف سے فارغ ہو کر سلطان فاتح ۸۶۰ھ میں قسطنطنیہ واپس آیا اور یہاں آتے ہی سرویا اور اس کے بعد بوسنیا کی طرف متوجہ ہوا یہ علاقے پہلے بھی حکومت عثمانیہ میں شامل رہ چکے تھے‘ لیکن آج کل ان کے باج گذار فرماں روائوں سے علامات سرکشی ظاہر ہونے لگے تھے‘ لہٰذا سلطان فاتح نے ان روز