تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے اس کو خوب مارا اور آئندہ کے لیے اس کو زیادہ مستعدر رہنے کا حکم دیا مگر امیر البحر کو بیچارے کی کوئی خطانہ تھی وہ اپنے چھوٹے چھوٹے جہازوں سے دیوہیکل جہازوں پر کس طرح قبضہ کر سکتا تھا۔ مگر سلطان کی تنبیہ اور امیر البحر کی بیش از بیش مستعدی کا یہ نتیجہ ضرور ہوا کہ اس کے بعد کسی اور جہاز کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ در دانیال کو عبور کر کے بحر مار مورا میں داخل ہو سکے ان پانچ جہازوں میں جو فوج سوار ہو کر آئی تھی یہ گویا قسطنطنیہ کے لیے آخری بیرونی امداد تھی۔ سلطان نے محاصرہ کے کام میں انتہا درجہ کی مستعدی دکھائی۔ بار بار نقصان اٹھانا پڑا۔ بار بار حملے ناکام اور بلا نتیجہ ثابت ہوئے۔ محصورین کی ہمتیں اپنی کامیابیوں کو دیکھ دیکھ کر اور بھی زیادہ بڑھ گئیں۔ شہر کے اندر سامان مدافعت اور رسد کی مطلق کمی نہ تھی وہ برسوں محصور رہ کر مدافعت پر ثابت قدم رہنے کا ارادہ کر چکے تھے ان کو یہ بھی توقع تھی کہ ہنگری کا بادشاہ ہنی داس اپنے عہد نامہ صلح کو توڑ کر ضرور شمال کی جانب سے حملہ آور ہو گا اور قسطنطنیہ کا محاصرہ اٹھ جائے گا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے سلطان محمد خان ثانی کی جگہ اگر کوئی دوسرا شخص ہوتا تو ضرور محاصرہ اٹھا کر چل دیتا اور اس کام کو کسی دوسرے وقت پر ٹال دیتا۔ مگر سلطان محمد خان اپنے ارادہ کا پختہ اور ہمت کا دھنی تھا۔ اس کے عزم و استقلال میں مطلق کمی نہ آئی اور وہ ہر ایک ناکامی کو دیکھ کر اور بھی زیادہ اپنے ارادہ میں مضبوط ہوتا گیا۔ سلطان محمد خان جب قسطنطنیہ کے ارادے سے فوج لے کر چلا ہے تو اس نے ایک جماعت علماء فضلاء اور عابدوں زاہدوں کی بھی اپنے ہمراہ لی تھی۔ ان باخدا لوگوں کی صحبت سے مستفیض ہونے کا اس کو ابتداء ہی سے بہت شوق تھا۔ وہ اپنے باپ کی زندگی کے آخری چھ سال انہی لوگوں کے پاس رہا تھا۔ اور انہی کے فیض صحبت سے اس کے ارادے میں استقلال اور حوصلہ میں بلندی پیدا ہوئی تھی دوارن محاصرہ میں بھی وہ انہیں روحانی اور باخدا لوگوں سے مشورہ لینا کافی سمجھتا تھا۔ رفتہ رفتہ جب محاصرہ کو طول ہوا تو اس جوان العمرو جواں بخت سلطان کو وہ تدبیر سوجھی جو اس وقت تک کسی کو نہ سوجھی تھی۔ شہر کی ایک سمت جو سمندر یعنی گولڈن ہارن (شاخ زرین) کی وجہ سے محفوظ تھی اس پر محاصرے کی کوئی زد نہیں پڑ سکتی تھی۔ محاصرین کی تمام ہمت خشکی کی جانب صرف ہو رہی تھی۔ خاص سینٹ رومانس والے دروازے کی جانب آلات قلعہ کشائی زیادہ کام میں لائے جا رہے تھے لہٰذا شہر والے بھی اور اطراف سے بے فکر ہو کر اسی جانب اپنی پوری قوت مدافعت صرف کر رہے تھے۔ سلطان نے سوچا کہ شاخ زرین کی جانب سے بے فکر ہو کر اسی جانب یعنی سمندر کی طرف سے اگر شہر پر حملہ ہو سکے تو ان کی توجہ دو طرف تقسیم ہو سکے گی اور اس طرح فصیل شہر کو توڑ کر اس میں داخل ہونا ممکن ہو سکے گا۔ مگر سمندر کی جانب سے حملہ اس وقت ہو سکتا تھا کہ گولڈن ہارن (شاخ زرین) کے دہانہ پر آہنی زنجیر نہ ہوتی اور جہاز اس میں داخل ہو سکتے۔ گولڈن ہارن سے مشرق کی جانب قریباً دس میل چوڑی خشکی گردن تھی جس کے دوسری طرف آ بنائے باسفورس کا سمندر تھا اور اس میں سلطانی جہاز آزادی سے چلتے پھرتے تھے۔ سلطان نے ماہ جمادی الاول کی چودھویں تاریخ جب کہ ساری رات کی چاندنی تھی باسفورس سے لے کر بندرگاہ گولڈن ہارن تک برابر لکڑی کے تخت بچھوا دیئے باسفورس کے کنارے خشکی پر اسی جہازوں کو چڑھا لیا۔ ان اسی جہازوں کی ٹرین جب خشکی پر چڑھ آئی تو ان میں باقاعدہ ملاحوں اور بحری سپاہیوں کو سوار کر دیا