تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھر ہزارہا آدمیوں نے دونوں طرف سے ان جہازوں کو دھکیلنا شروع کیا اس طرف سے ہوا بھی موافق تھی چنانچہ جہازوں کے بادبان کھول دیئے گئے اور وہ لکڑی کے تختوں پر آدمیوں کے زیادہ زور لگائے بغیر خود بخود ہی چلنے لگے۔ اس چاندنی رات میں ہزارہا آدمیوں کا شور و غل‘ خوشی کے نعرے اور فوجی گیت اور باجے شہر والے سنتے تھے اور کچھ نہ سمجھ سکتے تھے کہ آج عثمانیہ لشکر میں یہ کیا ہو رہا ہے آخر صبح ہونے سے پہلے پہلے یہ دس میل کی مسافت خشکی میں طے کرا کر ان جہازوں کو بندرگاہ گولڈن ہارن میں لا کر ڈال دیا گیا۔ قسطنطین کے جہاز جو گولڈن ہارن میں موجود تھے وہ سب گولڈن ہارن کے دہانہ کے قریب اور اس آہنی زنجیر کے متصل صف بستہ تھے تاکہ کسی کو اندر داخل نہ ہونے دیں۔ شہر کے متصل اور بندرگاہ کی نوک پر ان کو رہنے کی ضرورت نہ تھی۔ صبح ہونے پر شہر والوں نے دیکھا کہ عثمانیہ جہازوں نے فصیل شہر کے نیچے ایک پل بنا دیا ہے اور توپوں کو مناسب موقعوں پر رکھ کر اس طرف کی کمزور فصیل پر گولہ باری کرنے کی تیار کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر عیسائیوں کے حواس جاتے رہے۔ ادھر عیسائی جہازوں نے گولڈن ہارن کے دہانہ کی طرف سے اندر کی جانب آنا اور عثمانی جہازوں پر حملہ کرنا چاہا تو بندرگاہ کے دونوں کناروں کے توپ خانے نے جو اسی غرض سے نصب کر دیا گیا تھا۔ ان پر گولہ باری کی اور جو جہاز آگے بڑھا اسی کو گولہ کا نشان بنا کر ڈبو دیا۔ شاید اسی موقعہ پر سلطان محمد خان ثانی کے توپ خانے نے سب سے زیادہ مفید خدمت انجام دی۔ اس طرح یکایک سمندر کی جانب سے حملہ ہونے پر عیسائیوں کو اپنی طاقت تقسیم کرنی پڑی اور وہ مجبور ہو گئے کہ شہر کی اس جانب مدافعت اور حفاظت کے لیے زبردست فوج متعین کریں۔ اسی روز یعنی ۲۴ مئی کو قسطنطین نے سلطان کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ جس قدر خراج مجھ پر مقرر کریں۔ میں ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مجھ کو اپنا باج گذار بنا کر قسطنطنیہ میرے ہی پاس رہنے دیجئے۔ سلطان نے جب کہ اس کو شہر کے مفتوح ہونے کا یقین ہو چکا تھا جواباً کہلا بھجوایا کہ اگر تم اطاعت قبول کرتے ہو تو تم کو یونان کا جنوبی حصہ دیا جا سکتا ہے۔ لیکن قسطنطنیہ کو اپنے ممالک مقبوضہ میں شامل کیے بغیر میں نہیں رہ سکتا۔ سلطان محمد خان ثانی جانتا تھا کہ قسطنطنیہ کی عیسائی سلطنت جو سلطنت عثمانیہ کے بیچ میں واقع ہے جب تک قائم رہے گی خطرات اور مصائب کا سد باب نہ ہو گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ قسطنطنیہ سلطنت عثمانیہ کا بہترین دارالسلطنت ہو سکتا ہے۔ وہ قسطنطین اور اس کے پیشرو قیاصرہ کی مسلسل شرارتوں سے بھی بخوبی واقف تھا وہ اس قدر طویل محاصرہ اور محنت کے بعد اب کامیابی کے قریب پہنچ چکا تھا ایسی حالت میں قسطنطین کی درخواست پر اس کا جنوبی یونان دے دینے پر آمادہ ہو جانا بڑی ہی عظیم الشان شاہانہ فیاضی تھی لیکن قیصر قسطنطین کی قسمت میں یہی لکھا تھا کہ وہ مشرقی روم کی اس عظیم الشان اور پرانی سلطنت کا آخری فرماں روا ہو چنانچہ اس نے سلطان کی اس مہربانی سے کوئی فائدہ اٹھانا نہ چاہا۔ اور پہلے سے چہار چند زیادہ جاں فشانی و جان فروشی کے ساتھ قسطنطین مخالفت میں مصروف ہو گیا۔ ۱۹ جمادی الاول ۸۵۷ھ مطابق ۲۸ مئی ۱۴۵۳ء کو سلطان محمد خان ثانی نے اپنی تمام فوج میں اعلان کرا دیا کہ کل علی الصباح شہر پر ہر طرف سے آخری حملہ ہو گا۔ فوج کو شہر میں تاخت و تاراج کی اجازت دی جائے گی مگر اس شرط پر کہ وہ سرکاری عمارات کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں اور غیر مصافی رعایا جو اطاعت کے ساتھ امن طلب کرے