تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرے۔ قلعہ فصیل اور برجوں سے توپوں اور منجنیقوں کے ذریعہ محصورین نے محاصرین کو ترکی بترکی جواب دینا شروع کیا۔ آخر چند روز کے بعد فصیل شہر میں کہیں کہیں رخنے نمودار ہوئے لیکن محصورین کی قابلیت و مستعدی نے فوراً ان کو بند کر کے پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنا لیا۔ سلطان محمد خان ثانی نے اپنی فوج کو خندق کے کنارے تک لے جا کر کئی جگہ خندق کو پاٹ کر راستے بنائے اور اس طرح عثمانی فوج فصیل تک پہنچی۔ لیکن فصیل کے اوپر کوئی بس نہ چل سکا اوپر سے عیسائیوں نے روغن نقط جلا جلا کر ان پر پھینکنا شروع کیا مجبوراً ان کو واپس آنا پڑا۔ اب سلطان محمد خان ثانی نے ایک اور تدبیر سوچی وہ یہ کہ لکڑی کے اونچے اونچے مینار بنوائے جو فصیل شہر کی برابر بلند تھے۔ اور ان کے نیچے پہئے لگے ہوئے تھے جن کی وجہ سے بآسانی ان کو حرکت میں لا سکتے تھے ان میناروں کے ساتھ ایک ایک لمبی سیڑھی اوپر کے حصے سے بندھی ہوئی تھی ان میناروں کو خندق کے کنارے لے جا کر اور اس سیڑھی کو اوپر اٹھا کر اس کا دوسرا سرا قلعہ کی دیوار پر رکھ دیا۔ اس طرح خندق کے اوپر ایک پل بندھ جاتا تھا عثمانی سپاہی اس مینار پر چڑھ کر سیڑھی کے اوپر ہوتے ہوئے فصیل شہر پر پہنچنے کی کوشش کرنے لگے مگر محصورین نے نہایت مستعدی اور چابک دستی کے ساتھ ان میناروں پر رال کے جلتے ہوئے گولے پھینک کر ان میں آگ لگا دی اور اس طرح ان میناروں اور سیڑھیوں کے جلنے سے قلعہ کشائی کی یہ ندبیر بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ ۱۵ اپریل کو یعنی محاصرہ شروع ہونے سے نویں روز خبر پہنچی کہ جنیوا کے چار جہاز غلہ اور گولہ بارود کا سامان لیے ہوئے ترکی جہازوں کی صفوں کو چیرتے پھاڑتے ہوئے صاف بچ کر نکل گئے اور گولڈن ہارن یعنی قسطنطنیہ کی بندرگاہ میں داخل ہو کر شہر والوں کو یہ گرانقدر امداد پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ سلطان بذات خاص گھوڑے پر سوار سمندر کے کنارے پہنچا اور دیکھا کہ پانچ جہاز اسی طرح بحیرہ مارمورا میں دشمنوں کے اور آ رہے ہیں سلطان نے فوراً اپنے امیرالبحر اور بحری فوج کو حکم دیا کہ اس کو روکو اور بندرگاہ میں داخل نہ ہونے دو۔ سلطان محمد خان ثانی اور عثمانی بری فوج کنارے پراس بحری جنگ کے دیکھنے میں مصروف تھی ادھر عیسائی لوگ بھی فصیل شہر کے اوپر چڑھے ہوئے اس تماشے کے معائنہ میں مشغول تھے۔ عثمانی جہازوں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ ان جہازوں پر حملہ کر کے ان کی لمبی قطار کو توڑ دیا اور وہ ایک جگہ آگے پیچھے اور پہلو بہ پہلو اکھٹے ہو گئے۔ عثمانی جہازوں نے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیا اور ان سے قریب پہنچ کر ہر چند کوشش کی کہ ان پر چڑھ کر ان کے ملاحوں کو قتل کریں اور قابض ہو جائیں مگر وہ جہاز اس قدر بڑے اور بلند تھے کہ عثمانی سپاہی اپنے چھوٹے اور پست جہازوں سے ان پر کسی طرح نہ چڑھ سکے۔ اول جب کہ عثمانی جہازوں نے ان کا محاصرہ کر لیا تھا تو دیکھنے والوں کو یقین ہو گیا تھا۔ کہ یہ پانچوں جہاز ضرور گرفتار ہو جائیں گے لیکن اسی کشمکش میں تھوڑی دیر کے بعد دیکھا گیا کہ وہ بڑی تیزی سے عثمانی کشتیوں کے بیچ میں سے نکل کر بندرگاہ کی طرف چلے محصورین نے فوراً زنجیر نیچی کر دی اور وہ گولڈن ہارن میں داخل ہو گئے اس کے بعد زنجیر کو پھر کھینچ لیا گیا اور عثمانی جہازوں کے حملہ کا کوئی خوف ان کو نہ رہا۔ سلطان محمد خان نے اپنی بحری فوج کی اس ناکامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کو سخت ملال ہوا۔ اس نے اپنے امیر البحر کو بلا کر اپنے ہاتھ